• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا بھونچال گزشتہ برس پاکستان سپر لیگ ایڈیشن ٹو کے دوران آیا۔ پی سی بی نے خالد لطیف اور شرجیل خان کو معطل کرکے فوری طور پر وطن واپس بھیجا اور اس طرح پی ایس ایل پر آغاز میں ہی داغ لگ گیا۔ انگلینڈ میں مقیم کرکٹر ناصر جمشید کو اس کیس کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ انہیں معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی میں بھی ان کے خلاف کیس چلا۔ پی ایس ایل کے اختتام پر فاسٹ بائولر محمد عرفان اور شاہ زیب حسن کو بھی اسی کیس میں معطل کیا گیا۔ شرجیل خان کو اینٹی کرپشن کوڈ کی پانچ شقوں کی خلاف ورزی پر پی سی بی انٹی کرپشن ٹریبونل نے دو برس کی پابندی کی سزا سنائی۔ خالد لطیف پر پانچ برس کی پابندی عائد ہے۔ محمد عرفان کو بروقت رپورٹ نہ کرنے پر چھ ماہ کی پابندی کی سزا سنائی گئی جو وہ کاٹ چکے ہیں۔ شاہ زیب حسن کو ایک برس کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ان پر دس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ شاہ زیب حسن نے پابندی کے خلاف تو اپیل نہ کی لیکن دس لاکھ روپے جرمانہ ختم کرنے کی اپیل کی۔ 

پی سی بی نے یہ استدعا کی کہ شاہ زیب حسن کو تین شقوں کی خلاف ورزی پر الگ الگ سزا ہونی چاہئے، ایک سزا ناکافی ہے اور اس طرح پی سی بی اپیل مظور ہوگئی۔ بیچارے شاہ زیب حسن، جو جرمانہ معاف کرانے گئے تھے وہ اپنی سزا بڑھوا کر واپس آگئے۔ ان کی سزا ایک برس سے بڑھا کر چار برس کر دی گئی۔ شاہ زیب حسن موجودہ صورت حال میںنہ تو قومی ٹیم میں واپسی کے امیدوار ہیں اور نہ انہیں سنٹرل کنٹریکٹ ملتا ہے۔ دس لاکھ روپے دینا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان پر چار برس کے لئے کرکٹ کے دروازے بند کرکے روزی روٹی کمانے کو محدود کر دیا گیا۔ جب اس کی نشاندہی کی گئی تو پی سی بی ذرائع نے یہ بتایا کہ شاہ زیب حسن نے تو ایک برس کی پابندی کا کیس ہی نہیں لڑا۔ وہ تو جرمانہ معاف کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ غلط اور غیر سنجیدگی سے کیس لڑنے کی وجہ سے ان کا معاملہ خراب ہوا اور لمبی سزا کے حقدار ٹھہرے۔ ناصر جمشید جنہیں پی سی بی نے ہمیشہ ماسٹر مائند قرار دیا ہے۔ ان کے کیس پر بھی ہمیشہ ہی سوالات اٹھتے رہے ہیں اور اب فیصلہ آنے پر مزید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ناصر جمشید واحد کرکٹر ہیں جنہیں ایک ہی کیس میں دو بار سزائوں کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ پہلے ان پر عدم تعاون اور تحقیقات میں رکاوٹ بننے کا کیس چلایا گیا، جس میں انہیں ایک برس کی پابندی کی سزا سنائی گئی۔ ان کی پابندی اس برس تیرہ فروری کو ختم ہونا تھی اور ناصر جمشید دوبارہ سے انگلینڈ میں کرکٹ سے وابستہ روزگار تلاش کرنے کے لئے کوشاں تھے لیکن پابندی ختم ہونے سے چند روز قبل ہی ان کے اوپر فکسنگ کے الزامات پر مبنی ایک لمبا چوڑا کیس بنا دیا گیا۔ ان پر اینٹی کرپشن کوڈ کی پانچ شقوں کی سات بار خلاف ورزی کا کیس بنایا گیا اور اس کا فیصلہ چند روز قبل ہی سامنے آیا ہے۔ اینٹی کرپشن ٹریبونل نے دل بڑا کرکے سزا سنائی اور اس سزا سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ناصر جمشید ہی اسپاٹ فکسنگ کیس میں ماسٹر مائنڈ تھے۔ ناصر جمشید کو دس برس پابندی کی سزا سنائی گئی اور کرکٹ اور مینجمنٹ میں مستقبل میں کوئی عہدہ نہ دینے کی پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ ناصر جمشید کی اسپاٹ فکسنگ کیس میں دوہری سزا کے ساتھ ہی اس کیس میں سزائوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، کیس بند ہوگیا ہے۔ سزا یافتہ کرکٹرز کی اپیلوں کا سلسلہ شاید جاری رہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان سزائوں سے کرکٹ میں موجود کرپشن کا ناسور ختم ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا لیکن بحث جاری رہے گی کہ کیا ان کرکٹرز کو سزائیں دینے کے لئے درست طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ پی سی بی کے اپنے ہی ٹربیونل نے انہیں سزائیں دی ہیں۔ 

پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی کا کہنا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ ایک اور کرکٹر کا کیرئیر کرپشن کی بھینٹ چڑھ گیا ہے لیکن کرکٹ کرپشن کو ختم کرنے لئے سزائیں درست تھیں اور درست طریقہ کار بھی اختیار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناصر جمشید ہی مرکزی کردار تھے۔ وہ بیٹ کی فروخت کا کام نہیں کرتے تھے بلکہ کرکٹرز کی خرید وفروخت کا کام کرتے تھے لیکن کرکٹر ناصر جمشید کی اہلیہ ڈاکٹر ثمرہ افضل فیصلے پر بڑی نالاں ہیں۔ انہوں نے فیصلے کو فکسڈ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے کیس ختم ہونے سے پہلے ہی ناصر جمشید کو ماسٹر قرار دیا جوکہ کیس پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے۔ اس کیس کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔ اگر برطانوی ایجنسی سے کیس ختم ہو جاتا ہے اور ناصر جمشید کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو وہ پی سی بی کو سزا کے خلاف برطانوی عدالتوں میں لیکر آئیں گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ پی سی بی نے اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزائیں سنا کر اپنی طرف سے اس کیس کو بند کر دیا ہے لیکن ابھی یہ معاملہ تھمے گا نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں بھی یہ کیس زندہ رہے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین