• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 1988کےبعدکاغذات میں 25جولائی کو سامنے آنے والی یہ اب تک کی مضبوط ترین اپوزیشن ہےلیکن حقیقت میں یہ کمزورترین ہے۔ وہ حکومت کی بجائے ایک دوسرےکےزیادہ مخالف ہیں، جب تک کہ اپنےپہلے100دن میں بہت زیادہ غلطیاں سرزردنہ ہوجائیں تب تک یہ بات وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت اتحادکیلئےاچھی ہے، ورنہ انھیں سنجیدہ مشکلات پیش آنےکاامکان نہیں۔ 150ایم این ایزاور سینٹ میں اکثریت کےساتھ کوئی بھی اپو ز یشن حکمر ان جما عت کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ کاغذا ت پر مشترکہ اپوزیشن جوپی ایم ایل(ن) پی پی پی ، ایم ایم اے، اے این پی اور دیگر پرمشتمل ہے جبکہ حکمران پی ٹی آئی کوبھی بی اے پی، جےپی یوایس، ایم کیوایم (پاک)، پی ایم ایل (ق)، بی این پی اور دیگر کی حمایت حاصل ہے۔ ایک جوائنٹ اپوزیشن الیکشن میں الیکٹورل کالج کو مدنظررکھتے ہوئےچیئرمین سینٹ اورایک مضبوط صدارتی امیدوار لاسکتی تھی اورالیکشن کوایک حقیقی مقا بلے میں بدل سکتی تھی۔ حکمران اتحاد کوگزشتہ ایک ماہ (25 جولائی سے25اگست تک) میں واضح طورپر برتر ی حاصل رہی ہےاور اس نے بآسانی سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کاالیکشن جیت لیااور وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں میں کوئی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حکمران اتحاد میں یکجہتی اور اپوزیشن میں تقسیم کا ہی فرق تھا۔ تاہم عمران خان کا پنجا ب اورکےپی میں صوبائی کپتانوں کےانتخاب پر سوا لا ت اٹھ رہےہیں اورپی ٹی آئی کےتمام اوراتحادمیں بھی زیادہ لوگ اس کےقائل نہیں ہیں لیکن انھوں نے وزیر اعظم کا فیصلہ قبول کرلیا۔ ان کی کابینہ میں زیادہ ترپرانے لوگ شامل ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم نےمیرٹ کی بجائے تجربے یا ایڈجسٹمنٹ پرزوردیا۔ دوسری جانب اپوزیشن نے اپنی خامیاں اور اختلافات دکھائے۔ اول، انھوں نے وزیر اعظم کےانتخابات میں واضح پھوٹ پڑنےکےبعد حلف برداری کی تقریب کابائیکاٹ کرنے کی جےیوآئی (ف) کی تجویز مسترد کردی۔ مرکزی اپوزیشن لیڈرز پی ایم ایل (ن) کے صدر شہباز شریف اور سابق صدرآصف علی زر داری صلح نہیں کررہے کیونکہ انھوں نے‘ہاتھ ملانے’ سے انکار کردیا جبکہ دونوں نے اپنے مخالف عمران خان سے مسکراہتے ہوئے ملاقات کی۔ پہلی بار آصف زرداری مصالحت پسند انسان نظرنہیں آئے اور جس نے بھی شہباز شریف کو ہاتھ ملانے سے روکا تھا وہ مزید پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا ۔ شہباز شریف کی دوسری مشکل ان کا اپنی پارٹی پر‘ کمزور کنٹرول’ ہے۔ پی ایم ایل (ن) کے رہنماپرویز رشید کا بیان کہ اعتزاز کےپہلے نواز شریف سے معافی مانگنی چاہیے یہ صرف پی ٹی آئی کی حمایت میں گیا۔ اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ پی ٹی آئی کے لیڈرشاہ محمود قریشی نے نے دوسرے ہی دن اعتزاز احسن کی حمایت کی اور پی پی پی کو مشورہ دیا کہ انھیں واپس نہ لیاجائے۔ ان کابیان یقیناً اپوزیشن میں پھوٹ قائم رکھنے کی کوشش تھی اور پرویز رشید کاتازہ بیان اپوزیشن کی حمایت میں نہیں جائےگا۔ وزیراعظم کے الیکشن کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو پتہ لگاکہ حقیقت میں وہ بہت کمزوراور تقسیم شدہ ہیں۔ لہذادونوں طرف سےکچھ رہنما ئو ں نے‘برف پگھلانے’ اور4ستمبر کو ہونےو الے صدارتی الیکشن میں کسی مشترکہ امیدوارکولانےکی کوشش کی۔ کیاوہ یہ کرسکیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے پہلےہی سینئرپارٹی رہنماچوہدری اعتزازاحسن کو اپنا امید وارنامزدکردیاہےلیکن فرحت اللہ بابرنےکہاہے کہ وہ تاحال حتمی امیدوارنہیں ہیں۔ پی ایم ایل(ن) نے ابھی تک کسی کوبھی نامزد نہیں کیا اور وہ وزیراعظم کے انتخابات میں دھوکہ دینے پر پی پی پی سےمایوس ہیں، انھوں نے اعتزاز احسن کے نام پر تحفظات کااظہار کیاہے۔ ذرائع نےبتایاکہ شہباز شریف نےعیدکےدوسرے روز اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ملاقات میں اس معاملےاورپی ایم ایل(ن)کےپی پی پی کےساتھ تعلقا ت پربات کی ہے۔ حتٰی کہ اگردونوں پارٹیاں کسی مشترکہ امیدوارپررضامند ہوجاتی ہیں تو اس بات کاامکان کم ہی ہے کہ یہ اتحاد زیادہ دیرتک قائم رہے کیونکہ ایسے مسائل ہیں جن کے باعث ان میں پھوٹ پڑرہی ہے۔ مثال کےطورپریہ پی پی پی اور حتٰی کہ ایم ایم اےاور جماعت اسلامی کیلئےسابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نوازکی رہائی کامطالبہ کرنا مشکل ہوسکتاہےلیکن وہ ’شفاف ٹرائل‘ پررضامند ہوسکتے ہیں۔ دونوں سابق صدرجنرل (ر) پرویزمشرف کےٹرائل پر رضا مند ہوسکتے ہیں۔ اس بات کاامکان نہیں ہے کہ اپوز یشن جما عتیں پی ایم ایل(ن) کی حالیہ مہم’شریف کیلئے انصاف‘ میں شامل ہونے پرراضی ہوں لیکن ’سب کیلئے احتساب‘ کامطالبہ کرسکتی ہیں۔ مشترکہ امیدوار بننے کیلئے تجربہ کار سیاستدان چوہدری اعتزاز کی اپنی خوبیاں اور خا میا ں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتزازآج کافی نمایاں شخص، بہترین وکیل اور پارلیمنٹیرین ہیں۔ وہ نہ صرف وکلاء تحریک کےرہنماتھے بلکہ 2009میں ججز کی بحالی کیلئےلاہورسےاسلام آبادتک نواز شریف کے لانگ مارچ میں بھی اہم کرداراداکیاتھا جس کے نتیجے میں آصف زرداری ان سے ناراض ہوگئے تھے۔ نواز شریف سے ان کے اختلافات 2014میں شروع ہوئے۔ یہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے زیادہ سابق وزیرداخلہ چو ہد ری نثار علی خان اور ان کے درمیان اختلافات تھے۔ نوازشریف کبھی بھی اعتزاز اور حتٰی کہ زرداری کے ساتھ بھی تعلقات خراب کرنانہیں چاہتے تھے۔ پانامہ کے بعد کی صورتحال میں ان کے تعلقات ختم ہوگئے اور اعتزاز کےچند ذاتی بیانات سےنوازشریف ناراض ہوگئے۔ لیکن اعتزاز تاحال مریم نواز کو پی ایم ایل(ن) کی حقیقی قوت سمجھتے ہیں۔ پی ایم ایل(ن) کے پاس متبادل کیاہے اگر وہ ان پر راضی نہیں ہوتی اور کیاپی پی پی ان کانام واپس لینے کیلئے تیار ہے۔ پی ایم ایل(ن) میاں رضاربانی کیلئےنرم گوشہ رکھتی ہےلیکن زرداری صاحب کو ان پر اعتراض ہے۔ وہ چیئرمین سینٹ کیلئےایک خودکاراتنخاب تھےلیکن ان کانام واپس لے لیا گیا۔ اب کیاپی ایم ایل(ن)دوبارہ ان کانام تجو یز کرےگی۔ دوسرااتنخاب کےپی سےپی پی پی کے تجربہ کار رہنمافرحت اللہ بابرہوسکتے ہیں۔ جے یوآئی (ف)اور جماعت اسلامی اوردیگرمذہبی جما عتوں پر مشتمل ایم ایم اےڈاکٹرعبدالقدیرخان کانام تجویز کرسکتی ہیں انھوں نے بھی صدارتی انتخابات کیلئے کا غذ ا ت جمع کرائے ہیں۔ پی پی پی پہلے ہی اپوزیشن لیڈرکیلئے شہبا ز شریف کی حمایت کرچکی ہے تاکہ پی ایم ایل(ن) کےساتھ کشیدگی کوکم کیاجائے اور پارٹی کے تین اہم رہنما سید خورشید شاہ، رضاربانی اورفرحت اللہ بابرجن کی پی ایم ایل(ن) میں بھی کافی عزت ہے وہ شہباز شریف اور دیگرسےملےتاکہ اختلافات ختم کیے جاسکیں۔ یہ ملاقات خوش آئند تھی خاص طورپرآصف علی زرداری کی جانب سے پی ایم ایل(ن) کے وفد کےساتھ ملاقات سے انکار کےبعد، بہت سے لو گو ں کامانناہے کہ اپوزیشن کے حلقوں میں اس کااچھا تاثرنہیں گیا اور اسے سیاسی معاملےسےزیادہ ذاتی معاملے کے طور پر دیکھا گیا۔

تازہ ترین