گزشتہ دنوں پردیس سےمیرے ایک دوست کا خط آیا،اس نے ’’دیس‘‘ سے متعلق حال احوال دریافت کیا،تو سات سمندر پار رہنے والے! جواب حاضر خدمت ہے۔’’ایک ماہ قبل عید گزری ہے ۔اس موقعے پر بچے، بڑے اور بوڑھے سبھی خوش دکھائی دیتے ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ میٹھی عید کے مزے بھی تو میٹھے ہوتے ہیں، ناں... مگر گاؤں کے آخری کونے میں کچے گھروندے میں رہنے والے کریم چاچا کی بیوہ آج بھی دوائیوں کیلئے ترس رہی ہے اور قریب ہی دوسرے محلے میں مولانا قدوس کے گھر کے سامنے والی جھونپڑی میں رہنے والی ماسی بختو ، جس کا بیٹا 2009کے سیلاب میں ڈوب گیا تھا، جس کی نوبیاہی بہو بھی اسی واقعے میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی،اس کی پوتی اس بار بھی پرانے کپڑوں میں عید کررہی ہے۔
پردیس میں رہنے والے مجھے تمہارے درد کا احساس ہے، مگر اس موقع پر ذرا اپنے گاؤں کے حالات جان لیجئے۔گاؤں کے بیچوں بیچ جو بڑا حجرہ تھا جہاں ہم ’’سایہ دار توت‘‘ کے نیچے بزرگوں سے عید ملتے تھے وہاں اب ویرانی کا راج ہے،درخت سوکھ چکا ہے،ساتھ میں لگا کنواں بھی خشک ہوچکاہے۔ گاؤں کے کونسلر نے جو نلکا لگوایا تھا اس سے بھی پانی کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ ضلعی حکومت نے فنڈ دیا تو حجرے کی چھت ،لکڑیوں اور مٹی کی جگہ سریے اور سیمنٹ کی بنادی گئی، رنگائی بھی خوبصورت طریقے سے کروائی گئی ہے مگر لوگ بہت بے رنگ ہوگئے ہیں، نہ محفل اور نہ میل ملن۔ گھروں میں اب بھی سوئیاں پکتی ہیں انواع و اقسام کی شیرینی اور مٹھائیاں اب بھی اس حسین تہوار کا حصہ ہیں۔ مگر اپنوں میں اپنائیت ختم ہوئی تو مٹھائیوں سے مٹھاس چلی گئی۔
پردیس میں رہنےوالے۔۔۔! یہاں اب ہوش، پرجوش کی حکمرانی ہے۔ سرپھرے جنون کی دہشت ہے، لیکن پردیسی بابو، ایسا کیوں نہ ہو آخر؟ نئی نسل لگ بھگ ڈیڑھ دو عشروں سے بم دھماکوں، گولوں کی گھن گرج اور گولیوں کی گونج میں ہی تو جوان ہوئی ہے ،اسی لئے تو خوشی کا اظہار بھی اپنے طریقے سے کررہی ہے۔ چاہے وہ کرکٹ میچ جیتنے کی ، عید یا پھر شادی بیاہ کی خوشی ہو۔ جہاں لوگ پہلے ایک دوسرے کی خوشی میں بھنگڑے ڈالتے تھے، جھومتے ، ناچتے تھے، ایک دوسرے پر واری جاتے تھے، جہاں خالہ نوری تھکاوٹ کے باعث بھی بیمار پڑتی تھی تو پورا محلہ امڈ آتا تھا۔ مگر پردیسی میاں ! اب صورتحال بدل گئی ہے۔ ویران گلیوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ دیارِ غیر میں رہنے والے، یہاں اب دلیل نہیں دھونس کی اہمیت زیادہ ہے۔ تنقید نہیں تقلید کا رواج عام ہے۔ تعمیر پر تخریبی سوچ غالب آگئی ہے۔ ملک پر ذاتی مفاد مقدم ٹھہرا ہے۔ محنت اور وقار کےساتھ بام عروج پر پہنچنا پاگل پن اور سفارش ، خوشامد اور رشوت کے ذریعے زوال کی پاتال میں گرنا سب کی دلی خواہش ہے۔
پردیسی بابو۔۔۔! برکھا رت اب بھی ویسی ہی حسین اورراحت بخش ہے۔ مگر جب کالی گھٹائیں نیلے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں تو دل ڈوبنے لگتا ہے، کیونکہ اہل وطن یا تو پانی کیلئے مرتے ہیں یا پانی کے باعث مرتے ہیں۔ گوکہ ڈاکیہ اب چوکھٹ پر آکر چٹھی نہیں پڑھتا۔مگر آپ خوش فہمی میں نہ رہیں کیونکہ تعلیمی شرح اب بھی ویسی ہی ہے ۔ سوفیصد تک پہنچنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔ بجلی ایک گھنٹے کیلئے آتی ہے تو دو گھنٹے کیلئے جاتی ہے، لالٹین ختم ہوگئیں تو کیا ہوا،ایمرجنسی لائٹس اور سب سے بڑھ کر موبائل فونز میں ٹارچز تو ہیں ناں ۔ معاشرے میں اونچ نیچ اب بھی ہے۔گاؤں کے چندو چاچا کا بیٹا کامو آج بھی ملک صاحب کی گاڑی پرکپڑا مارتا ہے۔۔ ڈھور ڈنگروں کے لیےچارہ لاتا ہے، لیکن چھوڑیے جی وہ تعلیم حاصل کرکے کرے گا بھی کیا؟
پردیس میں رہنے والے سنو۔۔! کچھ کرائے کے شرپسندوں کے باعث امن کی فاختائیں اڑ گئی ہیں۔ نہ مسجد محفوظ ہے، نہ مندر اور نہ ہی گرجا ، مگر آپ دل چھوٹا نہ کریں۔ امن کے پجاری اب بھی ’’امن‘جیسی ناپید شے کی تلاش میں ہیں۔دعا کرو کے اچھے دن آئیں،وطن کی آزادی کا جشن ہم مل کر منائیں۔جب تم وطن آؤ توتمہیںسکھ،چین ملے۔ (آمین) …(طاہرنصرت)