• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آزادی کے65 برسوں کے دوران کسی بھی حکومت یا پارلیمنٹ نے زرعی، جائیداد اور اسٹاک مارکیٹ کے شعبوں کو موثر طور پر انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں۔ اندازہ ہے کہ ٹیکسوں کی چوری اور طاقتور طبقوں پر پارلیمنٹ کی جانب سے موثر طور پر ٹیکس عائد نہ کرنے سے قومی خزانے کو دو ہزار ارب روپے سالانہ سے زائد یعنی تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے روزانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے ساڑھے چار سالہ دور کے چند حقائق یہ ہیں۔
(1) جون 2008ء میں اسلام آباد میں رات گئے ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ حصص کی خرید و فروخت پر بڑھوتی ٹیکس میں مزید دو برس کے لئے جھوٹ دی جائے گی۔ چند روز بعد موجودہ پارلیمنٹ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ جون 2007ء میں جاری ہونے والے اقتصادی جائزے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس ٹیکس میں چھوٹ دینے سے صرف 2006-07ء میں قومی خزانے کو 112/ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اس فیصلے کی توثیق کردی۔
(2) پارلیمنٹ نے جون2008ء میں ایک ٹیکس ایمنٹی اسکیم منظور کرکے ٹیکس کی چوری اور لوٹ مار کے ذریعے حاصل کی ہوئی آمدنی پر قانونی تحفظ فراہم کیا۔ اس مالیاتی این آر او سے تقریباً 151/ارب روپے کی ناجائز دولت کو جائز قرار دے کر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ (3) جون 2009ء میں پارلیمنٹ نے معیشت کو دستاویزی بنانے کی حکومت کی نیم دلانہ کوشش اور برآمدات پر انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز کو مسترد کردیا۔
(4) موجودہ حکومت نے 2009ء میں آئی ایم ایف کو مطلع کیا کہ ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے میں پارلیمنٹ رکاوٹ ہے۔(5) پارلیمنٹ نے گزشتہ 5برسوں میں غیر حقیقت پسندانہ اہداف کی منظوری دی جبکہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب گرا جن سے معیشت پر تباہ کن اثرات پڑے۔
(6)ہم روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ تباہی کا نسخہ ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار کے پہلے دو برسوں میں 1609/ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہوا جبکہ اس ایوارڈ کے بعد دو برسوں میں 2964/ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہوا چنانچہ ملک پر قرضوں کا حجم 7810/ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 14651/ارب روپے تک پہنچ گیا۔
اس پس منظر میں یہ بات تکلیف دہ ہے کہ حکومت دو ٹیکس ایمنٹی اسکیمیں پارلیمنٹ کے سامنے بل کی شکل میں پیش کررہی ہے جن کے تحت حقیر رقوم کی ادائیگی پر ٹیکس چوری یا مختلف طریقوں سے لوٹ مار کرکے حاصل کی ہوئی آمدنی یا اس سے بنائے گئے اثاثوں کو جائز قرار دے کر قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ہم وزیرخزانہ سے درخواست کریں گے کہ وہ پارلیمنٹ میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ضرور دیں تاکہ نہ صرف پارلیمان بلکہ قوم کو بھی صحیح صورت حال کا علم ہوسکے۔ف
(1) کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مجوزہ ٹیکس ایمنٹی اسکیم کے تحت مثلاً قومی بچت اسکیم میں لگائی گئی5کروڑ روپے کی رقم جو ٹیکس چوری یا بدعنوانی کے ذریعے حاصل کرکے اور ٹیکس حکام سے بھی خفیہ رکھی گئی ہے وہ صرف 4/لاکھ 90/ہزار روپے کی ادائیگی پر جائز تصور ہوگی حالانکہ مروجہ قانون کے تحت حکومت اس اثاثے سے آج ہی ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقوم انکم ٹیکس کی مد میں بآسانی وصول کرسکتی ہے؟ کیا غلط کاریاں کرنے والوں کو اس قسم کی مراعات دینے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہے؟(2)کیا حکومت کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے اثاثے قومی بچت اسکیموں، بینکوں کے ڈپازٹس، اسٹاک مارکیٹ کے حصص، گاڑیوں اور جائیداد وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں؟ کیا ان اثاثوں کی تفصیلات مع قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں؟ کیا 38لاکھ مالدار ٹیکس چوروں کے اثاثوں کی تفصیلات حکومت کے علم میں نہیں ہیں۔(3) کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ اگر کمپیوٹر کے ذریعے ان اثاثوں کا متعلقہ شخص کے ٹیکس کے گوشواروں سے موازنہ کرکے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قانون کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے تو موجودہ مالی سال میں ہی دو ہزار ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس وصول کرنا ممکن ہے جس سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں بھی پیشرفت ہوگی؟ دو ہزار ارب روپے کوئی معمولی رقم نہیں، اس سے عوام کی بہتری کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
(4) مندرجہ بالا تجویز پر عمل درآمد نہ کرنے اور نام نہاد ٹیکس ایمنٹی قسم کی اسکیموں کا اجرا کرکے ان اثاثوں پر جن پر حکومت بآسانی ہاتھ ڈال سکتی ہے چند درجن ارب روپے وصول کرنے اور دو ہزار ارب روپے سے زائد کی آمدنی سے قومی خزانے کو محروم رکھنے کا آخر کیا جواز ہے؟ حکومت وہ وجوہات بتائے جن کی وجہ سے وہ اس تجویز پر عمل نہیں کر رہی؟
(5) کیا ان اسکیموں کے ذریعے ناجائز اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ دینے کے بعد پاکستان اس پوزیشن میں رہ جائے گا کہ وہ ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کی گئی دولت کی واپسی کا عالمی برداری سے مطالبہ کرسکے۔ واضح رہے کہ نائجیریا اور فلپائن نے اپنے سابق حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی ملکوں سے واپس لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ برسوں میں لوٹ مار کرکے دولت کمانے والوں اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والے افراد اور ان کے اہل خانہ کو حکومت ان کے ناجائز اثاثوں کو قانونی تحفظ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہ رہی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 10نومبر2012ء کو موجودہ پارلیمنٹ کو سلام پیش کیا ہے۔ امید ہے کہ معزز ممبران پارلیمنٹ اس کی لاج رکھتے ہوئے ان ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کی جو دراصل مالیاتی این آر اوز ہیں، منظوری نہیں دیں گے۔ پارلیمنٹ کے ہر ممبر کو مندرجہ بالا پانچ سوالات اپنے آپ سے پوچھنا ہوں گے۔ عوام اور سول سوسائٹی کو بھی اس ضمن میں پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ جن سیاسی پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے انہیں بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کو صرف مسترد کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ پارلیمنٹ کو ہماری مندرجہ بالا تجاویز پر عمل درآمد کے لئے موثر قانون سازی کرنا ہوگی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ انکم ٹیکس نافذ اور وصول کرنے کے لئے وفاق اور صوبوں کی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہیں۔ ان کے ممبران کے لئے یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قومی مفاد میں جرأت مندانہ فیصلے کریں۔ اس سے ان کی سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔ اگر ہماری ان تمام تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح16فیصد سے کم کرکے5 فیصد کرنے اور پیٹرولیم کی مصنوعات پر ہر قسم کے سرچارج ختم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں وصولی کا حجم دوگنا ہو جائے گا، مہنگائی میں زبردست کمی ہوگی، معیشت تیزی سے ترقی کرے گی، روزگار کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے اور تعلیم، صحت، عوام کی فلاح و بہبود اور توانائی کے بحران کے حل کے لئے زیادہ وسائل دستیاب ہوں گے۔
تازہ ترین