سلیم قاضی
خوب صورت، ذہن اور مثبت سوچ، زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے۔کسی بھی کر فن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنا کوئی معمولی بات ،نہیں ہوتی۔راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی شمع خالدنے اپنا قلم سے رشتہ اُس وقت جوڑا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوںسے کھیل پر اپنا دل خوش کرتے ہیں۔انہوں نے زندگی کی جنگ قلم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔وہ اس جنگ میں ہار جیت کی پروا کیے بغیرآگے بڑھتی رہیں، انہیں شہرت اور کام یابی کا کبھی لالچ نہیں رہا۔اس تخلیقی سفر میں اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے تحائف دیتی رہیں۔۔شمع خالد نے ساری زندگی قلم کی آب یاری میں گزار دی۔پتھریلے چہرے 1985ءگیان کا لمحہ 1990ءبے چہرہ شناسائی 1995ءگمشدہ لمحوں کی تلاش 2003ءاوربند ہونٹوں پہ دھری کہانیاںنے 2007ء میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کی ۔وہ کہتی ہیں’’ ابھی تک میں نے دو سو کے لگ بھگ افسانے لکھے ہیں۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں نے افسانے کیوں لکھے اور دل سے جواب آتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی۔ جی ہاں!اگر میں افسانے نہ لکھتی تو میرے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ بظاہر میں ایک کامیاب براڈ کاسٹر، ایک ماں بیوی اور بہن ہوں اور عورت کے لیے یہ ہونا ہی بہت ہوتا ہے، لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر میں افسانے نہ لکھتی تو مرچکی ہوتی۔افسانوں نے ہی مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا ہے۔ ان کے کردار میری روح میری سوچ کا حصہ ہیں کہ یہ کردار میری خوشی کے وقت رقص کرتے ہیں،اور دُکھ کے وقت میرے غموں کو آہستہ آہستہ چُن کر مجھے خاموش کردیتے ہیں۔‘‘
’’ شمع خالدیہ افسانے حقیقت پسندانہ انداز میں یوں لکھتی ہیں کہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور معاشرے کے بارے میں بعض ڈھکی چُھپی سچائیوں کے انکشاف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہانی سنانے یا لکھنے کا یہی وہ خوبصورت انداز ہے، جو چیخوف،موپساں،منٹو اور بیدی سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ۔ شمع جانتی ہیں کہ کسی بھی صنف کے امکانات ختم نہیں ہوسکتے ، اس لیے حقیقت پسندانہ کہانیوں کے امکاناتے آج بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ شمع کے مطالعے ومشاہدے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ہر وہ واقعہ یا کردار، جو ان کے تجربے میں آتا ہے،وہ کہانی کی صورت میں ‘انتہائی سادگی اور قرینے سے اظہار پاتا ہے۔شمع بات چیت کے انداز میں کہانی سُناتی ہیں،وہ سچی اور کھری کہانی کار ہیں ، اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انہوں نے فنی ریاضت جاری رکھی تو ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔‘‘
ان خیالات کا اظہار، اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 35برس قبل شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے ’’پتھریلے چہرے‘‘کی اشاعت کے موقع پر کیا تھا۔ اُن کی بات سچ ثابت ہوئی ،شمع خالد ادبی دنیا کی ایک منجھی ہوئی افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئیں۔قدرت اللہ شہاب جیسے قدآور ادیب نے لکھا کہ ’’شمع خالد کے افسانے پڑھ کر مجھے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ نفسِ انساں کی ڈھکی چُھپی کمینگیاں،برملا خواہشات،ترغیبات،بے راہ رویاں اور طرح طرح کی محرومیاں اُن کے موضوع ہیں۔ ان کی سوچ میں بیباکی ‘مشاہدے میں سچائی اور اسلوبِ بیان میں سادگی و فن کاری ہے‘‘
شمع خالد ان دنوں علیل ہیں ،لیکن اُن کا تخلیقی سفر پوری توانائی کے ساتھ جاری وساری ہے، گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے والد کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے ،جسے ادبی حلقوں میں بے حد سراہا جارہا ہے ۔اپنےتخلیقی سفرکے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ میں جب یہ سوچتی ہوں کہ میں نے افسانے کیوں لکھے؟تو مجھے بچپن میں اپنی لکھی کہانیاں یاد آتی ہیں۔ جب میں ساتویں جماعت میں تھی،تو میں نے اپنا افسانہ لکھ کر اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ روزنامہ’’تعمیر‘‘کے ادبی صفحے کے لیے بھجوایا۔ دوسرے روز جب بھائی نے بتایاکہ اخبار کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ افسانہ خوب ہے اور جلد ہی چھپ جائے گا۔ تو میںساری رات سو نہ سکی۔ افسانے کی ا شاعت کے اگلے ہفتے جب کسی صاحبہ نے لکھا کہ شمع پروین سے مستقبل میں توقعات رکھی جاسکتی ہیںتو یہ جملہ میرے لیے مشعلِ راہ بن گیا اور میں اس سفر پر چل پڑی اور کچھ نہ کچھ لکھتی رہی۔ صحافت کو آزمایا ،مضامین لکھے، قانون کی باتیں کیں، لیکن تسلی کہیں نہ ہوئی،جو سکون ایک افسانہ لکھ کر ملتاہے، وہ کہیں نہ ملا۔ میں نے جو کچھ دیکھا، سنا اپنے اردگرد پھیلی تلخ حقیقتوں کو محسوس کیا، انہیںسپردِ قلم کردیا۔ادب کا رشتہ اور تعلق زندگی ،زمین اور ماحول سے ہوتا ہے ،زندگی کی تیز رفتاری ، رہن ،سہن میں مشینی تبدیلی آج کے ادیب کو نت نئے تجربات سے روشناس کروا رہی ہے ۔ آج کا قلم کار دن رات کی تبدیلی کو آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ادب پر اثر انداز ہوتے دیکھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے آج کے ادب میں جو نت نئے تجربے اور تبدیلیاں کی جارہی ہیں، وہ زندگی کی تیز رفتاری کی بھرپور عکاسی کررہی ہیں، اسی لیے لکھنے والے کے ذہنی‘فنی اور فکری ارتقاء کا لا زمی جُزو ہیں۔میرے خیال میں میرے افسانے ان ہی خیالات کا تخلیقی اظہار ہیں ۔‘‘
اُردو دنیا کے نامور ناوِل نگار اور دانشور ممتاز مفتی نےان کے بارے میں لکھا تھا کہ نوجوان افسانہ نویس شمع خالد کے افسانوں میں روایت اور جدیدیت دونوں کی خوشگوار آمیزش ہے۔ اُن کے ہر افسانے کی بنیاد مرکزی خیال اور وحدتِ تاثر پر رکھی گئی ہے جسے اسلوب کی سادگی،روانی اور شگفتگی کی پھول پتیوں سے سجایا گیا ہے۔ شمع خالد کے افسانے آج کے سماجی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ مرکزی خیال بیشتر تمدّنی نوعیت کے ہیں اور ہماری زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ شمع خالد کے افسانوں میں زندگی کی شمع ہر رنگ میں جلتی ہے۔اُن کے افسانوں میں گھٹن‘محرومی ‘شدت یا تشدد کارنگ نہیں ‘جو آج کی تحریروں میں فیشن کے طورپر سجایا جاتا ہے۔میری دانست میں یہ بہت بڑی خوبی ہے۔‘‘
شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے پر قدرت اللہ شہاب ‘احمد ندیم قاسمی‘وزیر آغا‘ممتاز مفتی اور رشید امجد جیسے قدآور افسانہ نگار اور ادیبوں نے جن امکانات کا اظہار کیا تھا ،کئی برس گزرجانے کے بعد اُن کی ساری باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں ۔شمع خالد اس بارے میں بتاتی ہیں کہ میری خوش نصیبی رہے کہ مجھے اپنے ابتدائی دور میں ہی منجھے ہوئے ادیبوں اور شاعروں کی سرپرستی حاصل رہی ۔اگر وہ لوگ میری رہنمائی نہیں کرتے توشاید میرا فنی سفر اتنا آگے نہ بڑھتا ۔آج زندگی کے اس موڑ پر آچکی ہوں کہ جہاں احساسِ زیاں کچھ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ریت کی مانند وقت مٹھی سے پھسلتا چلا جاتا ہے۔ میں نے پہلی تحریر لکھی تو ابی جان نے اسے سول ملٹری گزٹ میں چھپوادیا اور جب وہاں سے میرے نام کا فائل کور انعام کے طورپر آیا تو اس وقت میں نہ سمجھ سکی کہ ابی جان قلم کا بار مجھے سونپنا چاہ رہے ہیں۔ پھر پانچویں جماعت میں مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول باغ سرداراں میں مضمون لکھنے کو دیا گیا۔ان دنوں ہمارے پانچویں جماعت کے کورس میں اِسلام کے علاوہ بدھ مت بھی پڑھاجاتا تھا۔ مضمون لکھنےکے لیے میںنے ابی جان سےمدد مانگی،انہوں نے مجھے ہندو ازم اور عیسائیت کے بارے میں بتایا تو میں نے اپنی کاپی میں تین صفحات پر مشتمل مضمون لکھا۔ یہ میری باقاعدہ پہلی تحریر تھی جسے میری استانی مِس امتل نے بے حد سراہا۔ مِس امتل بھی کیا کمال خاتون تھیں، انہوں نے مضمون پڑھ کر کہا لڑکی تم ایک دن بڑی رائٹر بنوگی۔ وہ اکثر اخبار میرے کمرے میں لاکر دیتیں اور کہا کرتیں ریڈیو پاکستان چلو، خبریں سنائو۔ یعنی قلم میرے ہاتھ میں ابی جان نے تھمایا اور اس کی شناخت مِس امتل نے دی۔ ابی جان نے ہمیشہ میری تعلیم میں دلچسپی لی جبکہ میری امی نے مجھے فنون، آرٹس اور اپنی ذات پر اعتماد کرنا سکھایا۔ میری امی ایک اچھی ماں ایک اچھی رہبر اور دوست اور لمحےلمحے کی ساتھی، جبکہ ابی جان جتنے پاس تھے اُتنے ہی دور تھے لیکن ہمیشہ فن کو بیان کرنے کی یہ میری عاجزانہ کوشش ہے۔ ابو ایک بہترین نعت خواں‘شاعر اور مصور ہونے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں ہومیوپیتھک کے پہلے طبیب بھی تھے۔ نبض شناس اتنے تھے کہ لوگ اُنھیں جنوں والا ڈاکٹر کہتے تھے۔‘‘
وزیر آغا نے شمع خالد کے بارے میں کیا خوب لکھا تھا کہ ’’کہانی کو تیز رنگوں اور شوخ لکیروں کی مدد سے بھی اُبھارا جاسکتا ہے اور مدھم رنگوں اور موہوم لکیروں کی وساطت سے بھی پہلی صورت میں پلاٹ منضبط اور کردار واضح ہوتا ہے‘جبکہ دوسری صورت میں کردار سائے میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پلاٹ محض ایک خلاسا نظر آنے لگتا ہے،لیکن شمع خالد نے کہانی لکھنے کے ان مروّج رویوں سے ہٹ کر زندگی کے چھوٹے چھوٹے بظاہر غیر اہم واقعات اور معاملات پر افسانے لکھے ہیں ‘اس طور کہ نہ تو وہ پلاٹ اور کردار کی سنگلاخیت کا شکار ہوئے اور نہ ہیولوں میں تبدیل ہوکر بے نام اور بے چہرہ ہوگئے ۔ کہانی کی تلاش کے لیے تاریخ کے اوراق الٹنے‘اخبارات میں درج بڑے بڑے حادثات اور واقعات کو گھنگالنے یا افیونی کے خوابوں سے مدد طلب کرنے کی ضرورت نہیں‘کیونکہ کہانیاں تو خود روپھولوں کی طرح ہمارے چاروں طرف اُگی ہوئی ہیں۔ بس انہیں ایک نظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔شمع خالد کی کامیابی اس بات میں ہے کہ اسے معمولی واقعے کے غیر معمولی پن کو دیکھنے اور دکھانے کی صلاحیت حاصل ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ‘‘۔
شمع خالد نے اپنی زندگی کا ایک غیر معمولی واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں کسی تقریب میں گئی تھی تو اچانک میری ملاقات عالمی شہرت یافتہ مصور صادقین سے ہوئی ‘انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ تم سامنے کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑی ہوجائو اور اُس کے بعد انہوں نے میری تصویر بنانا شروع کی تو میں حیران رہ گئی ۔وہ فن پارہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔‘‘اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ میری شادی سولہ‘ سترہ برس کی عمر میں ہوگئی تھی اور مجھے بہت پیار کرنے والا شوہر ملا میرے چھ بچے ہیں ‘چار بیٹے اور دو بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں وطنِ عزیز کا نام روشن کررہے ہیں۔ بچوں میں کہانیاں لکھنے کی صلاحیت تو نہیں ہے، لیکن وہ شاعری میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔میں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ،ریڈیو پاکستان سے ملنے والے معمولی معاوضے سے بچوں کی اعلیٰ تربیت کی ۔جب بھی مجھے کوئی ریڈیو سے چیک ملتا تومیں اپنے بڑے بیٹے کے لیے کھلونے خرید لیتی تھی ۔میں نے ریڈیو اسٹیشن اسلام آباد اورحیدرآباد میں باقاعدہ ملازمت بھی کی ساری زندگی قلم سے رشتہ جوڑے رکھا میرے شوہر بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے انہوں نے پانچ ایم اے کیے ہوئے تھے ۔ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں حمایت علی شاعر ‘نور اظہر جعفری سے بھی ملاقاتیں رہیں ‘وہ ریڈیو کا بہت خوبصورت دور تھا ‘ریڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران میں اپنے بچے بھی ساتھ لے جاتی تھی، وہ سب اِدھر اُدھر کھیلتے رہتے تھے ‘‘۔