لندن (مرتضیٰ علی شاہ) فرانس میں انٹرپول کے ہیڈکوارٹر میں برطانیہ کی کمیونٹی لیڈر شپ فائونڈیشن نامی تنظیم کی جانب سے ہزاروں برٹش پاکستانیوں کے دستخطوں سے ایک درخواست جمع کرائی گئی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ حسن، حسین اور اسحاق ڈار کیخلاف نیب کے وارنٹ مسترد کردیئے جائیں اور اس پر کوئی کارروائی نہ کی جائے، کیونکہ یہ مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں، فائونڈیشن کے چیئرپرسن بیرسٹر عابد حسین نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے نیب کی جانب سے حسن، حسین اور اسحاق ڈار کی گرفتاری اور ان کی ملک بدری کیلئے انٹرپول سے رابطے کے خلاف یہ پٹیشن بھیجی ہے۔ عابد حسین نے بتایا کہ اس پٹیشن پر برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں مقیم 2 ہزار سے زیادہ افراد کے دستخط اور یہ ثابت کرنے کیلئے کہ مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے اور یہ ایک سیاسی معاملہ ہے، سیکڑوں ڈاکومنٹس بھی منسلک کئے گئے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم نے اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کے ارکان کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور مفاد عامہ کے تحت ان تینوں کے خلاف کوئی نوٹس یا وارنٹ جاری کرنےسے روکا جائے، کیونکہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی طور پر پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف سے رشتہ داری کی وجہ سے بنائے گئے ہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آئینی تاریخ اور سیاسی رہنمائوں اور ان کی فیملیز کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک خاص طور پر12 اکتوبر1999 کی فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف اور ان کی فیملی کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مقدمات کی منصفانہ سماعت کا امکان نہیں ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد قید تنہائی میں تضحیک آمیز صورتحال میں ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ پٹیشن میں انٹرپول کے اپنے آئین کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے آرٹیکل 3 کے تحت سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات کی پراسیسنگ کی واضح طور پر ممانعت کی گئی ہے۔ انٹرپول کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ وہ سیاسی نوعیت کے الزامات سے متعلق مقدمات میں ملوث ملزمان کے بارے میں درخواست رد کردیتا ہے۔ جس کی واضح مثال 2006میں بے نظیر بھٹو، 2012میں جنرل پرویز مشرف، 2017میں الطاف حسین اور2018میں حسین حقانی ہیں۔ پٹیشن میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے اور ان کی سیاسی سوچ یا دبائو قبول نہ کرنے پر ان کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان کے خلاف وزیراعظم ہائوس سے طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اورانھیں 77سال قید کی سزا سنائی گئی اور بعد میں غیرقانونی طور پر پوری فیملی کے ساتھ دسمبر 2000 میں سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے اپنی تنخواہ، جو انھوں نے کبھی وصول نہیں کی، الیکشن کمیشن سے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیا گیا، یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ان کی نااہلی کا، جسے پانامہ کیس سے جوڑا جارہا ہے، نہ تو پانامہ لیکس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی پٹیشن میں اسے شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 6جولائی2018 کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے بنائی گئی قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم نے اپنے وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں سزا دی گئی لیکن میں احتساب بیورو کی دفعہ 9(اے)(v) کی شق کے مطابق، جس کے تحت انھیں سزا دی گئی، برطانیہ سمیت متعدد ملکوں کے قوانین کے کرمنلٹی کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ انٹرپول سے اس میں کہا گیا ہے کہ جج محمد بشیر نے نواز شریف کو کرپشن، کرپٹ پریکٹس یا عہدے کے غلط استعمال کے الزام سے بری کردیا تھا۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حسن اور حسین نواز شریف اور اسحاق ڈار کو ماضی میں بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدمات میاں محمد نواز شریف پر سیاسی سبقت حاصل کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں، ملک بدری میں کسی طرح معاونت یا نوٹسز یا وارنٹس کا مطالبہ نواز شریف کو غیر جمہوری سیاسی مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کیلئے کیا گیا ہے، حسین نواز لندن سکول آف اکنامکس اور پولٹیکل سائنس کے سابق طالبعلم اور لنکولن ان سے بیرسٹر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں، ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم انھیں سیاسی موٹیویٹڈ نیب کی جانب سے کسی بھی انتقامی کارروائی سے بچانے کیلئے اپنی آواز بلند کریں۔ تمام چارجز اور عدالتی مقدمات شریف فیملی کو ڈرانے، دھمکانے کیلئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انھیں زبردستی پاکستان بھیجا گیا تو ان پر منصفانہ مقدمات نہیں چلائے جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور حراست کے دوران ان کے ساتھ غیر انسانی اور رسواکن سلوک کیا جائے، مسٹر شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو کئی ماہ سے15ویں صدی کے اٹک قلعہ میں، جسے مغل حکمران بغاوت یا غداری کے ملزمان کیلئے قیدخانے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔