• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل تک میں خوابوں کو دماغی خلل سمجھتا تھا۔ مگر عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میں خوابوں کی سچائی پر اعتبار کرنے لگا ہوں۔ میں اس بات پر بھی یقین کرنے لگا ہوں کہ تاریخ انسانی کی عظیم ترین ہستیاں بھی آپ کے خوابوں میں آسکتی ہیں اور آپ کو ہدایات دے سکتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے آپ کے راستوں کا تعین کرتی ہیں۔ یہی ہستیاں آپ کے رویوں میں تبدیلی لاتی ہیں۔ آپ کا رہن سہن بدل ڈالتی ہیں۔ تمام ہدایات آپ کو خوابوں میں ملتی ہیں۔ یہ وہ خواب ہوتےہیں جن کی تعبیر کبھی الٹی نہیں نکلتی۔ اس طرح کے خواب آپ میں اور ہمارے جیسے اللہ سائیں کے آدمی نہیں دیکھتے ۔ اگر کبھی اس طرح کا کوئی خواب ہم دیکھ لیں توتعبیر ہمیشہ الٹی نکلتی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی راستے سے گزر رہا ہوں۔ راستہ کے دونوں اطراف درخت تھے ان درختوں میں ایک درخت ایسا بھی تھا جس پر اشرفیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں درخت پر چڑھ گیا اور اشرفیاں توڑ توڑ کر اپنی جیبیں بھرنے لگا۔ جیبیں کھچا کھچ بھر گئیں۔ میری آنکھ کھل گئی۔ ٹٹولا تو جیبیں خالی تھیں۔ دوسرے روز میں منڈی سے مینڈھا خرید کر آ رہا تھا۔ راستے میں مجھے ایک موٹر سائیکل پر سوار دو آدمیوں نے روکا۔ میری کنپٹی پر پستول رکھا۔ میری جیب سے پرس نکالا، موبائل فون چھینا اور مینڈھا موٹر سائیکل پر سوار کر کے لے گئے۔ یہ تعبیر تھی اس خواب کی جس خواب میں، میں ایک درخت پر لگی ہوئی اشرفیاں توڑ توڑ کر اپنی جیبیں بھر رہا تھا۔ اس حکایت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم چھوٹے آدمی چھوٹے خواب دیکھتے ہیں۔ اور چھوٹے خوابوں کی تعبیر ہمیشہ غلط یا پھر الٹی نکلتی ہے۔ بڑی مار پڑتی ہے بعد میں۔

سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جس طرح ہم سب کی شکلیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہم سب کے نصیب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہم عام آدمیوں کی کوئی پہنچ نہیں ہوتی۔ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بڑی پہنچ ہوتی ہے ۔ وہ پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم بے پہنچ لوگوں کی طرح پہنچے ہوئے لوگ بھی خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے خواب میں قابل تقدس ہستیاں آتی ہیں۔ ہمیں خواب میں پرچھائیاں ملتی ہیں۔ ہم بہت ہی چھوٹے اور بے پہنچ لوگ جب بھی خواب دیکھتے ہیں، تب اس خواب کی تعبیر خواب کے برعکس نکلتی ہے۔ سندھی لوک ادب میں ایک کردار وتایو فقیر کے نام سے مشہور ہیں۔ طرح طرح کے قصے اور کہانیاں ان کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب ہیں۔ کچھ قصے کہانیاں سچی ہیں۔ کچھ قصے کہانیاں جھوٹی ہیں، اور کچھ قصے کہانیاں من گھڑت ہوتی ہیں۔ جو قصے کہانیاں جس کے جی میں آتی ہیں وہ وتایو فقیر کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ ایک مرتبہ وتایو فقیر نے خواب میں خوب چیخ چیخ کر الاپ لگایا تھا، ’’تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔‘‘ خواب سے جاگے تو ملک میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگا ہوا تھا۔ بچے دس سال تک توپوں اور بندوقوں کے سائے میں پل کر جواں ہوئے تھے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ وتایو فقیر نے خواب میں چلا چلا کر گایا تھا، ’’شمشیر و سناں اول طائوس ورباب آخر‘‘۔ خواب سے جاگے تو فلم انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ چکاتھا۔ کوریوگرافی یعنی فن رقص پر فحاشی کی مہر لگ چکی تھی اور مصوری اور مجسمہ سازی شرک اور گناہ کے زمرے میں آچکے تھے۔ وہ دور مرد مومن جنرل ضیاالحق کا دور تھا۔

ان دو چار مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سب وتایو فقیر ہیں۔ ہم جب بھی خواب دیکھتے ہیں تب اس کی تعبیر خواب کے برعکس نکلتی ہے۔ مگر جب پہنچا ہوا کوئی نیک دیندار بندہ خواب دیکھتا ہے تب اس خواب کی تعبیر عین خواب کے مطابق نکلتی ہے۔ عمران خان اب تک کہتے پھرتے ہیں کہ بائیس برس کی عرق ریزی، تگ و دو اور جدوجہد کے نتیجے میں وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ مگر در پردہ عمران خان ایک خواب کی تعبیر کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے ہیں۔ وہ تعویذ، گنڈوں اور چلوں کے مثبت نتائج کی وجہ سے ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی تعویذ گنڈوں اور چلوں میں یقین رکھتی تھیں۔ چھپ چھپ کر اسلام آباد کے دھنکا بابا سے چھڑیاں کھانے جاتی تھیں۔ گجرات کے چھوٹے سے شہر جلال پور چٹاں کے قریب پیر ٹانڈواں والا کے یہاں حاضری دینے جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ لاڑکانہ کے قریب چھوٹے سے شہر قمبر کے ایک پیر سائیں کے قدموں میں جاکر بیٹھ گئی تھیں۔ کسی بد بخت نے ان کی تصویر کھینچ کر وائرل کر دی۔ اس تصویر کے بڑے بڑے پوسٹر ٹرکوں پر لگے تھے ۔ کینیڈا سے کشمیر، کراچی اور کوالالمپور تک اس تصویر پر بحث ہوئی تھی۔ اور کسی نے لکھا تھا Knowledge has been thrown into dust bin۔ علم ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔ راولپنڈی میں بے نظیر کی کن پٹی پر جب گولی لگی تھی تب وہ چار تعویذوں کی حفاظت میں تھیں۔ دو تعویذ ان کے بازوئوں پر بندھے ہوئے تھے اور دو تعویذ ان کے گلے میں پڑے ہوئے تھے۔اب ان کے صاحبزادے بلاول زرداری تعویذ باندھ کر اور پہن کر گھر سے نکلتے ہیں۔ تعویذ گنڈے کرنے والے، چلے کاٹنے والے، کنڈلی نکالنے والے، زائچہ بنانے والے، اختر شناسی اور دست شناسی کرنے والے، اور جوتشی ہمارے سیاستدانوں میں خاصے مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ تبدیلی آچکی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کو احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں کہ اسلام میں خواب اور خوابوں کی تعبیر پر تحقیق کرنے کے لئے یونیورسٹی آف ڈریمز اور ڈریمنگ University of Dreams and Dreaming کا فوراً اجرا کیا جائے۔ اس یونیورسٹی میں تعویذ، گنڈوں ، چلوں، جادو منتر، خاص طور پر کالے جادو پر تحقیق کرنے والوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین