ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری،کراچی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔ ان ہی میں سے ایک ہمارے ناخن بھی ہیں۔ صحت مند ناخن نہ صرف ہاتھوں اور پیروں کو خُوب صُورت بناتے ہیں، بلکہ انگوٹھے اور انگلیوں کے سِروں یعنی پوروں کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ نیز، ناخن باریک ترین اشیاء کو چُننے یا اُٹھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ناخن اپنی مختلف علامات کے ذریعے ہماری عمومی صحت کے متعلق بھی آگاہ کرتے ہیں۔ اگر ان کی رنگت اور ساخت میں تبدیلی محسوس کرلی جائے، تو کئی طبّی مسائل سے بروقت محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ پیدایش سے لے کر موت تک ناخن بڑھتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہاتھوں کے ناخن تین ماہ، جب کہ پائوں کے ناخن چھے تا سات ماہ میں ایک سینٹی میٹر بڑھتے ہیں۔ اگر ناخنوں کی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے، انہیں سلیقے سے تراشا نہ جائے، تو یہ جراثیم کی آماج گاہ بن جاتےہیں۔ نتیجتاً ہماری صحت ہی متاثر نہیں ہوتی، بلکہ ناخن بھی کسی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ناخن میں پھپھوندی یعنی فنگس کا ہوجانا ناخنوں کے امراض میں سب سے عام مرض ہے۔ یہ ہاتھ، پیر دونوں کے ناخن متاثر کرتا ہے۔ تاہم، پائوں کے ناخن زیادہ جلد اس کی لپیٹ میں آتے ہیں اور خواتین کی نسبت، مَردوں میں یہ مرض زیادہ عام ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی بھی آبادی میں تقریباً10فی صد افراد کے ناخن خراب ہوتے ہیں۔ ناخن کے فنگس کا سبب مختلف بیکٹریاز ہیں۔ مثلاً ڈرما ٹوفائٹس (Dermatophytes)، کینڈیڈا (Candida) اور نان ڈرما فائیٹک مولڈس (Non Dermatophytic Molds) وغیرہ۔ تاہم، ذیابطیس کا مرض، مصنوعی ناخنوں کا استعمال، پبلک سوئمنگ پول میں نہانا، ناخن پر چوٹ کا لگنا،60برس سے زائد عُمر، قوتِ مدافعت میں کمی، ہاتھ پیروں کا ٹھنڈا رہنا، مینی، پیڈی کیور کے ٹولز، مستقل بند جوتوں کا استعمال، زیادہ دیر تک ہاتھوں، پیروں کا گیلا رہنا، زیادہ پیسہ آنا، موروثیت، سورائیسز اور مرطوب جگہوں پر کام کرنا وغیرہ بھی فنگس کا سبب بن سکتے ہیں۔ نیز، وہ کھلاڑی جنہیں ’’Tinea Pedis‘‘کا عارضہ لاحق ہو، وہ افراد جن کے ناخن کم رفتار سے بڑھتے ہوں یا وہ افراد، جن کے ہاتھوں، پیروں میں خون کی گردش سُست ہو، وہ بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ناخن کا فنگس شاذ و نادر ہی ایک سے دوسرے فرد کو متاثر کرتا ہے۔ وہ بھی اُس صورت میں، جب ایک طویل عرصے تک فنگس زدہ ہاتھ دوسرے فرد کے ہاتھوں سے مَس ہوتے رہیں۔
فنگس کی علامات میں سب سے واضح علامت ناخن کا موٹا، بے رنگ یا پھر کالا، پیلا یا سبز پڑ جانا ہے۔ علاوہ ازیں، ناخن کے جڑ کے قریب سفید یا پیلے دھبّے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر جوں جوں مرض بڑھتا ہے، ناخن ٹوٹتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جڑ ہی سے ختم ہوجاتا ہے۔ ناخن ٹوٹنے کے عمل کے دوران یا پھر مکمل طور پر ٹوٹ جانے کے بعد ناخن کی نچلی جگہ متوّرم ہوجاتی ہے اور درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ ناخن کے اردگرد کی جِلد پر پپڑیاں سی بن جاتی ہیں اور ناگوار بُو بھی آتی ہے۔ اگر مرض شدّت اختیار کرے، تو جسم میں درد رہتا ہے اور بعض اوقات جِلد پر دھپڑ اُبھر آتے ہیں۔ جن میں خارش بھی ہوتی ہے۔ تاہم، ان میں فنگس نہیں ہوتا۔ طبّی اصطلاح میں اس کیفیت کو’’Dermatophytid‘‘کہا جاتا ہے۔
بعض بچّوں کے ناخنوں کی بناوٹ پیدایشی طور پر کسی نقص کا شکار ہوتی ہے، لیکن ایسے بچّوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ عموماً وہ بچّے، جن کے پیدایشی طور پر ناخنوں کی بناوٹ درست نہ ہو یا سرے سے ناخن ہی نہ ہوں، اُن کے دانت اور بال نکلنے کا عمل سُست پڑ جاتا ہے۔ پسینے کے غدود تاخیر سے اپنےافعال انجام دیتے ہیں۔ اصل میں حاملہ خواتین اگر معالج کے مشورے کے بغیر ادویہ کا استعمال کریں، تو شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر مختلف اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں، جن میں سے ایک ناخنوں کی بناوٹ کا متاثر ہونا بھی ہے۔ بعض کیسز میں موروثیت بھی وجہ بن سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، ناخنوں کی رنگت بھی کئی امراض کی نشان دہی کرتی ہے۔ مثلاً اگر ناخن زرد پڑگیا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ جسم خون کی کمی، دِل و جگر کے عوارض یا پھر غذائی کمی کا شکار ہورہا ہے۔ سفید ناخن جگر کی خرابی ظاہر کرتے ہیں، تو ناخنوں پر بلبلے بننا جگر اور دماغ میں تانبے کی مقدار بڑھنے کا اشارہ ہے۔اس طرح سبز رنگ کے ناخن،’’Pseudomonas‘‘جرثومے سے متاثر ہونے کی علامت ہیں اور ناخنوں کی رنگت نیلی پڑ جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ جسم کو مطلوبہ آکسیجن فراہم نہیں ہورہی ہے۔ ناخن کا پھول جانا اور کناروں کی رنگت سُرخ پڑجانا، جِلدی مرض کی علامت ہے۔ اگر خدانخواستہ ناخن کے گرد سیاہ لائنز ظاہر ہورہی ہوں تو جلد از جلد معالج سے رابطہ کیا جائے کہ یہ علامت جِلدی سرطان کی بھی ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں، ناخنوں پر لمبی سیدھی لائنیں عموماً دورانِ حمل ظاہر ہوتی ہیں یا پھر اگر دانتوں سے ناخن کاٹے جائیں، تب بھی ایسی دھاریاں پڑجاتی ہیں۔
ناخنوں کے فنگس سے محفوظ رہنے کے لیے ان کی حفاظت اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر آپ کوئی ایسا کام کرتے ہیں، جس میں ہاتھوں یا پائوں زیادہ دیر تک پانی یا کسی کیمیکل میں رہتے ہیں، تو بہتر ہوگا کہ ربر کے دستانوں کا استعمال کیا جائے۔ مینی اور پیڈی کیور ہمیشہ کسی اچھے پارلر سے کروائیں، مصنوعی ناخنوں کا استعمال کم سے کم کریں۔سوتی موزے پہنیں، تاکہ باآسانی نمی جذب ہوسکے۔ ناخنوں کو دِن میں کئی بار برش اور معیاری صابن کے جھاگ سے صاف کریں، دھونے کے بعد اچھی طرح خشک کرلیں، تنگ جوتے دستانے اور گیلی جرابیں اور جوتے ہرگز نہ پہنیں۔ اگر آپ کو اپنے ناخنوں میں غیر معمولی تبدیلی محسوس ہو، تو سب سے بہتر تو یہی ہے کہ فوری طور پر معالج سے رجوع کرلیا جائے۔
(مضمون نگار، ڈائو یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہے)`