• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

-oعمران خان کی شخصی انفرادیت میں کوئی شبہ نہیں، یہ انفرادیت ہی ان لوگوں کے لئے اَنا کا سوال بن جائے گی جن کے نزدیک ان کی انفرادیت اصل شے ہے، وہی حب الوطنی کی ’’پھُننگ‘‘پر ٹکی ہوئی ہے۔

-oخان صاحب لازم نہیں الزامات پر یقین کیا جائے البتہ عوام میں آپ کے جن ساتھیوں کا ’’تاثر‘‘ گڑبڑ ہے، انہیں اس ’’پہلی بار‘‘ میں کم از کم اپنے اور قوم سے دور رکھیں۔

-oزندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہمیں اس کے سامنے سرنڈر کر دینا چاہئے، اپنے دشمنوں اور سمیت سب کیلئے کسی بے بسی اور معذوری سے پناہ طلب کرنی چاہئے۔

-oاچانک موت، ان دیکھی مصیبتوں آزمائشوں اور حادثات سے پناہ مانگتے رہو، وقت نے ایسا ہی سکھایا اور پڑھایا ہے۔

-oلمبے شوکت عزیز کا نام بھی ’’احتساب‘‘ کے دائرے میں سامنے آیا ہے، یہ وہی شخص ہے جو لال مسجد میں گولیوں کی بوچھاڑ کے درمیان یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا ’’میں اپنی بیوی کے ساتھ قلفی کھانے جا رہا ہوں‘‘ یہ شخص اس وقت اس ملک کا وزیراعظم تھا۔

-oدوستی صرف برابر کی ہے باقی سب ’’گزارہ‘‘ ہے۔

-oپچاس برس بعد جائز اور ناجائز دانشور اپنا ماضی بھول جاتے یا ملتوی کر دیتے ہیں۔

-o’’متحمل مزاج‘‘ کے طور پر مشہور حضرات کی اکثریت ’’میسنوں‘‘ کی ہوتی ہے۔

-oغریب کو رحم کی چلتی پھرتی اپیل بھی کہا جا سکتا ہے۔

-oاخلاقیات بھی طاقتور کے حضور رحم کی اپیل ہی ہے۔

-oخفیہ ایجنسیاں انسانوں کے باطنی عدم اعتماد نے تشکیل دی ہیں۔

-oاس صدی کے اختتام تک ’’حب الوطنی‘‘، ’’ملکی سالمیت‘‘، جغرافیائی و نظریاتی سرحدیں‘‘ اور ’’کفار‘‘ جیسی اصطلاحات کی فکری اور عملی ایکسپلائٹیشن تاریخ کی مسترد داستانوں کا حصہ ہو گی۔

-oٹی وی چینلوں پر ’’آزادی صحافت‘‘ اور ’’عوامی فرائض‘‘ کے لیکچرار اپنی تصوراتی نمازیں ٹیڑھی صفوں پر ادا کرتے ہیں۔

-oطاقتور کا مہینہ 20دن کا بھی ہوتا ہے۔ سلطان راہی نے بھی یہی کہا تھا۔

-oپنجاب میں بلاول بھٹو زرداری کی متوقع آمد پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالوں اور ’’سیاسی بکیوں‘‘ کے درمیان مقابلے کا میدان ہو گا۔ ’’سیاسی بکیوں‘‘ کے جیتنے کا امکان زیادہ ہے۔

-oبیورو کریسی اور ریاستی اہلکاروں کی تربیت کے لئے انہیں انسانی اخلاقیات کے گھٹیا معیارات کا مجموعہ ازبر کرایا جاتا ہے۔

-oکتابوں کی زیادہ تر تقریبات رونمائی اپنی تخلیقی نالائقی اور علمی کمی کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔

-o’’شامت اعمال‘‘ کا مکمل ترین لغوی اور معنوی مطلب پوچھنے کے لئے صوبے کے ’’آئی جی‘‘ اور صوبائی محکمہ اطلاعات کے ’’ڈی جی پی آر‘‘ سے زیادہ مناسب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

-oبوڑھی ہیروئنیں فلم انڈسٹری کے زوال اور تباہی کی باتیں کرتے ہوئے دراصل اپنی جوانی کا سیاپا کر رہی ہوتی ہیں ۔

-oلہری نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل ایک جاننے والے سے حالت فالج میں باتیں کرتے ہوئے کہا تھا ’’شہرت ایک سراب ہے‘‘ پیارے لہری! دنیا بھی ایک سراب ہی ہے مگر دنیا دنیا ہے، ہم سب اس میں مبتلا رہتے ہیں۔

-oمذہبی حوالوں سے پیش گوئیاں کرنے والے دو کالم نگار اپنی اپنی پیش گوئیاں فراموش کر دینے کی ’’لازوال‘‘ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

-oنجومیوں، پیروں، عاملوں، سٹہ بازوں اور وغیرہ وغیرہ کے پاس دھڑا دھڑ جانے والی قوم اپنے مقدر پر بدقسمتی کی مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔

-oبعض لکھنے والوں کی اکثریت پاکستانیوں کے لئے ناگزیر عذاب جاں کی حیثیت رکھتی ہے۔

-oخوبصورت عورت کو عظیم پنجابی وژنری صوفی اور شاعر میاں محمد بخش نے صندل کی سفید لکڑی سے تشبیہ دی ہے۔ پوری اردو شاعری میںیہ تشبیہ کسی نے استعمال نہیں کی۔

-oقائداعظمؒ، اقبالؒ اور لیاقت علی خان قیام پاکستان کی ابتدائی دہائی تک زندہ رہ جاتے تو انہیں پتا چل جاتا ’’دایاں بازو‘‘، ’’مذہبی جماعتیں‘‘ اور ’’ایجنسیاں‘‘ کس بھائو پڑتی ہیں؟

-oمشاہد حسین ’’ن‘‘ لیگ کے احسن اقبال، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق پر بھاری ہے۔ تقریر کروا کے، مضمون لکھوا کے، مذاکرہ کروا کے دیکھ لیں، شرط صرف ایک ہے یعنی آمنے سامنے۔

-oانگریزی زبان کے دو سینئر کالم نگاروں ایاز امیر اور خالد حسن مرحوم کی شاعرانہ نثر پڑھ کر اکثر پاکستان ٹائمز کے محمد ادریس اور زیڈ آئی مرزا یاد آ جاتے ہیں۔

-oمستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں کی تعداد زیادہ ہے، عطاء الحق قاسمی نے سفر زیادہ کئے ہیں، فارمولا تو مستنصر صاحب کے پاس ہوا۔

-oمیز کے دوسری طرف بیٹھا ہوا شخص جب چاہے اپنے سامنے موجود فرد کو پرلے درجے کا نا اہل اور بیوقوف ثابت کر سکتا ہے اس کی وجہ قابلیت نہیں ’’ٹیکنیکل پوزیشن‘‘ ہے۔

-oننانوے فیصد اچھے یا بُرے، نیک یا بد، دولت مند مفلس اور ضرورت مند کے لئے ذہنی اور سماجی عذاب ہوتے ہیں۔

-oضرورت مند اور مقروض، صاحب حیثیت اور قرض خواہ کے سامنے اکثر خواہ مخواہ بتیسی نکال کر اپنے منہ کے زاویئے خراب کرتا ہے دونوں حضرات اس کی تمام تر ’’محنت‘‘ کے باوجود اس سے سخت بوریت محسوس کرتے ہیں۔

-oموجودہ جمہوری نظام عوام کے حق ووٹ اور حق عزت کا اولین دشمن ثابت ہو چکا ہے۔

-oنوسر باز سرکاری درباروں اور محکموں کے برآمدوں جبکہ درماندہ اور مقہور عوام گیٹوں کے باہر ہوتے ہیں۔

-oسابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آزاد عدلیہ کا عملی نتائج کا ریکارڈ مرتب ہو رہا ہے۔ عوامی دانش کی بیلنس شیٹ میں ’’عدل کی منزل‘‘ کے سوا عظیم داستانوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے۔

-oریاست واقعی ماں جیسی ہوتی ہے۔ اعتزاز نے درست یاد دہانی کروائی لیکن نالائق اولاد اس کے پائوں کے نیچے سے جنت چھین لیا کرتی ہے۔

-oفوج، طالبان اور سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے سینیٹرفیصل رضا عابدی نہ جانے کیوں پاکستان کے گلی محلوں کا عمومی مکاملہ بنے رہے، ان دنوں کہاں ہیں؟

-oاقبالؒ، قائداعظم اور مذہبی جنونیت کے موضوعات پر یاسر پیرزادہ کی نظریاتی تحریریں دائیں بازوں کی فکری تنگ و تاریک اندھی گلی میں روشنی کا تازہ ترین شاہکار ہیں۔

-oپاکستان کی دھرتی پر قیامت تک کسی اتاترک کی پیدائش ناممکن ہے۔ اگر پیدا ہو بھی گیا تو چند گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ حسن نثار کو اطلاع ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین