• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کتابیں زندگی بدل دیتی ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سارے کام ہم کتابوں کے مطابق کرتے ہیں۔ پاکستان کا دستور ہر پاکستانی کے لئے اہم اور اس کو قانونی اور اصولی تحفظ مہیا کرتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے۔ اس دستور کو سب سے زیادہ ہمارے حکمران نظر انداز کرتے ہیں حالیہ دنوں میں انتخابات کے بعد حکمرانوں کی تبدیلی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے کپتان عمران خان اپنی 22سالہ ریاضت کے نتیجہ میں پونے دو کروڑ ووٹ لے کر پاکستان پر حکمرانی کے حق دار ٹھہرے۔ عمران خان، جو اب وزیراعظم پاکستان ہیں، صاحب قلم ہیں اور صاحب کتاب بھی۔ سابق وزیراعظم کتابوں سے دور ہی رہتے تھے اور ان کے برادر سابق صوبے دار پنجاب کو عوامی شاعر حبیب جالب کے کچھ شعر یاد تھے اور ان کا بھرپور پرچار بھی کرتے۔ ان کے خاندان کے لوگ اس جالب تعلق پر ان سے خوش بھی نہیں تھے۔ ابھی چند دن پہلے کسی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے پوچھا آپ آج کل کیا پڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے ابھی عمران نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ پڑھنے والی کتاب کا نام تھا Why Nations Fail۔ جس کو دو مصنفوں نے لکھا ہے ان میں ایک امریکی اور دوسرا برطانوی ہے۔ کتاب ترکی و امریکی معاشی معاملات کے تناظر میں ہے۔

حیران کن بات ہے قومی اسمبلی کے فلور پر کبھی بھی کسی کتاب کا ذکر نہیں ہوا۔ عمران خان کے علاقے کے قرابت دار ڈاکٹر نور محمد اعوان جو حکومت پنجاب کے اعلیٰ سرکاری آفیسر ہیں، نے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے ایک معروف پبلشنگ ہائوس نے ان کی انگریزی میں ریاضی، الجبرہ اور اعداد کے حوالہ سے دو کتابیں شائع کی ہیں ان کتابوں کے نام ہیں۔

1.FATHER OF ALGEBRA MOHAMMAD BIN MUSA AL- KHAWARIZMI

اور دوسری کتاب ہے۔

2.ARITHMETICS AND NUMERAL OF AL KHAWARIZMI

ان کتابوں پر جنگ کے ادبی صفحہ پر جناب رئوف نے تبصرہ کیا ہے۔ مگر تبصرہ کافی تشنہ ہے۔ مجھے ان کتابوں کی علمی حیثیت کا اندازہ ہے۔ ہمارے ہاں ریاضی کا مضمون زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور ریاضی کے حوالہ سے پاکستانی مصنفوں کی کتاب ملتی بھی نہیں ہے۔ ان دو کتابوں کا اضافہ غنیمت ہے۔ کتابوں کا اسلوب آسان انگریزی میں ہے۔ اعدادوشمار کے حوالہ سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ یہ ذکر بھی اس لئے آیا کہ ہمارے جنگ کے ایک معروف کالم نویس نے عمران کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حلف 18اگست کی بجائے 19اگست کو اٹھائیں۔

مجھے اپنے فاضل دوست کے مشورہ کے بارے میں حیرانی تھی کیونکہ پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ حلف 14اگست سے پہلے اٹھایا جا سکتا ہے اور 14اگست کی وجہ سے وزیراعظم مدعو کرنا مقصود تھا۔ مگر سیاسی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اب سوال تھا 19اگست کا مشورہ کس بنیاد پر دیا گیا۔ ہمارے کالم نویس کے مشورہ کے مطابق ایک صاحب علم و فکر نے اعداد اور شخصیت کے حوالہ سے 19اگست کو معتبر مانا تھا۔ جبکہ 18اگست کا فیصلہ بھی بہت سوچ بچار سے ہوا اور اس میں صاحب تصوف اور روحانی اسرار کے حوالہ سے رہنمائی تھی۔ 18اگست کے حوالہ سے عدد 9بنتا ہے جبکہ 19اگست کے حوالہ سے عدد ایک بنتا ہے۔ ان معاملات میں کسی ایک عدد پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اور اعداد کے علاوہ کئی اور حوالہ جات بھی زندگی کے معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں۔ عمران خان کے حوالہ سے ان کی کامیابی میں ان کی اہلیہ کا بھی بہت ہاتھ ہے اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کے حوالہ سے اللہ دونوں کے رزق اور کامیابی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ قسمت کے تمام معاملے انسانوں کی رسائی سے عموماً ماورا ہوتے ہیں۔

پاکستانی انتخابات کی تاریخ 25جولائی تھی مسلم لیگ نواز کے ارباب اختیار اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ عہدہ دار نے باہمی مشاورت سے اس تاریخ کا تعین کیا تھا۔ جب شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنوایا گیا تو ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا نا اہل وزیراعظم ہی انتخابات تک وزیراعظم مانا جائے گا۔ اس ہی وجہ سے شاہد خاقان عباسی نے کبھی بھی اپنے آپ کو وزیراعظم تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت سابق وزیر خزانہ لندن میں تھے۔ جب نیب عدالت نے نواز شریف کے کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تو میاں نواز شریف کی واپسی ضروری تھی۔ لندن کی ایک روحانی شخصیت نے یقین دہانی کروائی کہ آپ جائیں اور لاہور سے پنڈی کے سفر کے دوران ہی فیصلہ آپ کے حق میں آ جائے گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ معقول تعداد میں لوگ مہیا نہ کر سکی اور صدر مسلم لیگ شہباز شریف لاہور کی سڑکوں پر ہی لوگ تلاش کرتے رہے۔ دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری اپنے پیر صاحب، جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی ہدایت پر اسلام آباد میں رہے مگر کراچی کے معاملات نے ان کو پریشان رکھا۔

انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی کچھ روحانی شخصیات نے عمران خاں کی کامیابی کا تذکرہ کیا تو ہماری سیاسی اشرافیہ بے چین ہو گئی اور قبل از وقت انتخابی دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا ان ہی دنوں میں ایک پیر کا تذکرہ بھی ہوا جس نے 1992میں عمران خاں کے حوالہ سے بشارت دی تھی اور ان کا بیان لاہور کے ایک اہم اخبار میں شائع بھی ہوا تھا۔ عمران خان بھی دینی اور روحانی معاملات میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انتخابات کے زمانہ میں پاک پتن کا سفر اسی حوالہ سے تھا۔ جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو ہماری سیاسی جماعتوں کے اہم لوگوں نے عمران خان کو ہرانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اس میں جادو ٹونا، چلہ، بنی گالہ کے علاقہ میں مختلف قسم کے عامل بہت مصروف رہے۔ جادو کے حوالہ سے ایک بات اہم ہے کہ جادو حکمرانوں پر نہیں ہوتا۔ گو ابھی عمران حکمران نہیں بنا تھا۔ مگر عمران کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ وزیراعظم بننے جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک خواب کا تذکرہ بھی ہوتا رہا ہے۔

اب جبکہ عمران خان وزیراعظم پاکستان بن چکے ہیں اور اگلے 100دن کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ زیادہ وقت اسلام آباد میں گزاریں ان کے روحانی مرشد نے ان کو ظاہری عبادت سے منع بھی کیا ہے آنے والے دنوں میں سابق صوبے دار پنجاب شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اگرچہ یہ دونوں فریق قانونی جنگ کی تیاری کر چکے ہیں۔ مگر حالات اور ستاروں کی چال ان کے مخالف نظر آتے ہیں۔ صدقہ اور خیرات کا وقت بھی گزر چکا ہے پاکستان میں جمہوریت کا معاملہ بھی پریشان کن ہی رہے گا۔ عمران خان کی کامیابی سادگی اختیار کرنے میں اور قانون اور سزا کو سب کے لئے لاگو کرنے میں ہے۔ سزا اور مکمل سزا ہی عمران خان کو کامیابی کی نوید دے گی۔ کچھ سابق اہم لوگوں کو گرفت میں لانا ہو گا۔ تحریک انصاف میں شامل لوگوں پر نظر رکھنی ہو گی اور تفریق کے بغیر انصاف کم وقت میں دینے سے منزل آسان ہو جائے گی۔

وہ لیگی ہو، انصافی ہو یا پی پی کا دلارا ہو

چڑھا دو ٹکٹکی اس کو کہ جس سے ملت کو خسارہ ہو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین