• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کی لوڈشیڈنگ تو کسی پیر تسمہ پا کی طرح قوم کے کندھوں پرسوار ہو چکی ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی، تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہوتا ہے جو بل اور اس میں شامل متعدد ٹیکسز بروقت ادا کرتا ہے بصورت دیگر ان کا کنکشن منقطع کرنے کو محکمہ کے ملازمین مستعد رہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ بجلی چوری کرنے اور واجبات ادا نہ کرنے کے باعث شروع ہوئی۔ 1980ء تک ملک میں پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی کی پیداوار 60فیصد جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل کی جانے والی بجلی کی پیداوار 40فیصد تھی، 2010ء میںیہ شرح تناسب الٹا ہو چکا تھا اور پھر اس ضمن میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہ آئی بلکہ حالات سنگین تر ہی ہوتے جارہے ہیں۔ جمعۃ المبارک کے روز لاہور سمیت کئی شہروں میں شدید گرمی اور بدترین حبس تھا، لیسکوسسٹم اوور لوڈنگ کی وجہ سے بیٹھ گیا، علانیہ اور غیر علانیہ لوڈشیڈنگ، بار بار ٹرپنگ اور وولٹیج میں کمی و بیشی سے بجلی کی بندش کا دورانیہ بڑھ گیا، شہری بلبلا اٹھے اور متعدد شہروں میں احتجاج کیا۔ عوام نے وزیراعظم سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ملک میں لوڈشیڈنگ سمجھ سے بالاتر ہے، حکومتوں ، بجلی کی پیداواری اور ترسیل کی ذمہ دار کمپنیوں کے پیچیدہ معاملات میں عجیب سی پراسراریت محسوس ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جو معاہدے کئے گئے اور نجی سیکٹر کو یہ ذمہ دار سونپی گئی ان کی تو مکمل چھان بین ہونی ہی چاہئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ بجلی چوری نہ رکنے اور لائن لاسز بڑھتے چلے جانے کی کیا وجہ ہے؟ بجلی کا موجودہ ترسیلی نظام انتہائی فرسودہ ہے جس کی مکمل طور پر تبدیلی ضروری ہے۔ اسی طرح پن بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے پورے ملک میں چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ سردست حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو سختی سے ہدایت کرے کہ عوام کو لوڈشیڈنگ سے حتی المقدور بچائیں۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین