• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن نے اس وقت مارکیٹ میں مختلف شوشے چھوڑرکھے ہیں۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ پختون قیادت قومی اسمبلی سے باہر ہوگئی ہے۔ہم اپوزیشن اتحاد کے مخالف نہیں، لیکن بارہا اپنے کالموں میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اس کا موزوں وقت قبل از انتخابات تھالیکن محمود خان اچکزئی کے ما سوا سب کو ہڈی یا ’چارہ‘ ملنے کی امید تھی اسلئے ان تمام شکست خوردگان کی توجہ اُس وقت اتحاد نامی بے’ چارے‘کی طرف نہیں گئی!دوم اپوزیشن جماعتیں کسی جمہوریت کیلئے پریشان نہیں، اپنی شکست ہی پر حواس باختہ ہیں۔ان دنوںمحترم اسفندیار خان پریس کانفرنسوں سے لیکر جلسوں میں بلا ناغہ کہتے رہتے ہیں کہ پختون قیادت کو پارلیمنٹ سے باہر کردیا گیا ، سو اب پشتونوں کی آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں رہا۔وہ پختون قیادت میںمولانا صاحب، سراج الحق ،محمود اچکزئی ، آفتاب شیرپائو اور خود کو شامل کرتےہیں۔ تمام لغات میںقائد کے لغوی معنی ہیں ’’لشکرکا سردار،حاکم،آندھے کی لاٹھی پکڑ کر چلنے والا، رہنما، لیڈرہیں ،چونکہ اسفندیار صاحب نے زور پختون قیادت پر دیا ہے، تو اس حوالے سے میرے سامنے 1325صفحات پر مشتمل پشتو لغت ’’دریاب‘‘ موجود ہے، یہ جناب قلندر مومند اور فرید صحرائی کی عرق ریزی کا شاہکار گنجینہ ہے۔ اسکے مطابق قائد عربی کا لفظ ہے جس کے معنی پشتو میں ’’سرخیل، مشر، پیشوا ہیں ۔چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے پختونوں کے سرخیل خوشحال خان خٹک ،احمدشاہ ابدالی، شیرشاہ سوری ،ابراہیم لودھی، فقیرایپی، ملاپائوندہ، پیر روخان ،حاجی صاحب ترنگزئی ،غازی امان اللہ خان اور دیگر تھے۔ اور مشر باچاخان، خان شہید عبدالصمد اچکزئی ،خان عبدالولی خان ، اجمل خٹک تھے۔اوراب محمودخان اچکزئی اور اسفندیار ولی خان ہیں۔یہ تاریخ ہے، لیکن اے این پی کا کہنا یہ ہے کہ نہیں ،ملاعمر اورگلبدین کے شاگرد بھی ان میں شامل ہیں .........

دیدار ِ بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست

بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے

یہ واضح ہے کہ مولانا اور سراج صاحب کے پختون ہونے میں کوئی کلام نہیں،بحث یہ ہے کہ کیا یہ بھی خود کو پختونوں کا قائد قرار دیتے ہیں؟یا اے این پی بہ زورانہیں مشرف بہ قومیت بنانےپر تلی ہوئی ہے؟ 26اگست 1939ءکو جب جماعت اسلامی قائم ہوئی تو دیگر اصولوں کے علاوہ یہ طے کرلیا گیا’’ جماعت اسلامی مسلمانوں کو کسی قومیت،کسی زبان،کسی نسل ،کسی جغرافیے ،کسی ثقافت اور کسی صوبے کی طرف نہیں بلائے گی۔ہم جیسے ’’ناسمجھوں‘‘کیلئے مزید وضاحت کی گئی’’ہمارے اور قوم پرستوں میں اساسی فرق یہ ہے کہ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے، نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک نسل‘‘ ۔اب ظاہر ہے سراج صاحب کا بھی وہی نصب العین ہے جو اُن کی جماعت کا ہے ۔بلکہ وہ شدت کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ ا یم ایم اے کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے فرمایا ’’ جو لبرل اور سیکولر جماعتیں لسانیت اورعلاقیت کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہیں ، اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عام انتخابات میں لسانی اور علاقائی تعصبات کے بت پاش پاش ہو جائیں گے‘‘ اب ایم ایم اے کا پختونخوا میں اے این پی سے بھی مقابلہ تھا ،تو وہ کون سے’’بت‘‘تھے جن کے پاش پاش کرنے کا عزم کیا گیا؟ دوسرے پختون قائد مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی بھی نیشنل ازم کی اُتنی ہی مخالف ہے جتنی جماعت اسلامی ہے۔یو م تاسیس پر مولانا نے فرمایا’’ دیگر جماعتیں لسانیت،علاقیت اور قومیت کا نعرہ لگاتی ہیں لیکن جے یوآئی ان کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار ہے۔ 17اپریل 2017کوروزنامہ جنگ کی اشاعتِ خصوصی میں مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا محمد امجد خان کے جو مضامین شائع ہوئے تھے، ان میں ان حضراتِ نے یہاں تک لکھ دیا ’’ پاکستان ،جے یوآئی کی کوششوں سےوجود میں آیا، یہاں تک کہ سرحد(پختونخوا) اورسلہٹ کا ریفرنڈم جیت کر جے یو آئی نے ایک تاریخ رقم کردی‘‘ دوسرے معنوں میں جے یو آئی سرحد (پختونخوا) کے ریفرنڈم میں باچاخان کے موقف کے مد مقابل تھی۔مولانا حیدری وہی محترم شخصیت ہیں جو آج کل اپوزیشن کی پریس کانفرنسوں میںمیاں افتخار اور شیریں رحمان کے درمیان نظر آتے ہیں۔یعنی پختون ’قائد‘کی جماعت جے یو آئی برملا کہتی ہے کہ ہم قومیت مخالف سیاست کرتےہیں ، لیکن اسفندیار صاحب کا اصرار ہے نہیں ، آپ اس سیاست کی قیادت کرتے ہیں، سبحان اللہ... ان دنوں اے این پی کی نظر میں جو سب سے بڑے پختون قائدین ہیں ،اُن کے حوالے سے جناب ولی خان نے اپنی کتاب ’باچاخان اور خدائی خدمتگاری ‘جلد سوم میں صفحہ 652 تا 744(92) صفحات میں جو ہوش ربا انکشافات کئے ہیں ، اُن سے اے این پی کے نوخیز دوستوں کو بدمزہ کرنا نہیں چاہتا۔ ولی خان صاحب نے 1990ءکے انتخابات میں جے یو آئی کے مولانا حسن جان سے اپنی شکست کے متعلق جو تفصیلات لکھی ہیں ،ان میں سے چند سطور پیش خدمت ہیں ’’ اس حلقے میں جماعت اسلامی اور جے یوآئی کو گلبدین حکمت یار کی مالی و افرادی حمایت حاصل تھی،مسجد میں لائوڈ اسپیکر کو قانونی طور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لیکن مجھے(ولی خان کو) روس کا ایجنٹ ثابت کرنے کیلئے یہاں ہر طرح کی آزادی تھی۔صفحہ 655پر ولی خان رقم طراز ہیں ’’مجھے خود مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ مجھےایک قوت(ولی خان صاحب نے نام لکھا ہے) بلایا اور دبائو ڈالا کہ ہر حال میں ولی خان کو قومی اسمبلی سے باہر کرانا ہے ‘‘ ....افسو س صد افسوس، جن لوگوں کے ذریعےولی خان کو قومی اسمبلی سے باہر کروایاگیا،آج وہی لوگ اے این پی کے پختون قائدین بن گئے ہیں....

یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

پھر بھی اگر اے این پی کا یہ کلیہ مان لیا جائے کہ قطع نظر اس کے کہ، کسی کا پختون قومی تحریک کے حوالے سے کردار کچھ بھی ہو ، لیکن اگر وہ پختون سیاستدان ہے تو وہ پختون قائد ہے،تو پھر اس اصول کے مطابق پختون ہونے کے ناطےاس وقت عمران خان وزیر اعظم کے ساتھ پختونوں کے بھی اس لئے قائد ہیںکہ وہ بھی تو پختون ہیں۔ سید بہادر شاہ ظفرکاکا خیل کی مستند تاریخ’پختون تاریخ کی روشنی میں ‘کے صفحہ 1347کے مطابق لودی قبیلے کا مورث اعلیٰ سلطان ابراہیم لودی ہیں ، جو شاہ حسین کے بیٹے اور شیخ بیٹ (بیٹ نیکہ)کے پوتے تھے۔نیازی، سوری، لودی(لودھی)مروت، لوھانی ، دوتانی ایک ہی دادا کی اولاد ہیں۔ڈاکٹر لیاقت علی خان کی کتاب’میانوالی ‘کی تاریخ کے مطابق نیازی قبیلے کا تعلق لودی(لودھی)پشتون خاندان سے ہے۔دیگر تفصیلات کیلئے 4مئی2015کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والاراقم کا کالم’نیازی پختون اور عمران خان ‘کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اے این پی کے کلیہ کے مطابق کیا یہ ماتم کا مقام ہے یا جشن کا ، کہ ایک’ پختون قائد ‘ وزیراعظم بن گیا ہے!!لیکن یہاں سرخوں کے من میں جوش مارتے خون کے پہلو میں یہی سوال طیش پذیر ہوگاکہ عمران خان کیا خاک پختون حقوق کی بات کرینگے۔توپھر مودبانہ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مولانا اور سراج صاحب اسمبلی میں جاتے تو یہ پختون ایشوز پر بات کرتے ، یا شام، چیچنیا، بوسنیا،غیر اخلاقی اشتہارات پر !

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین