• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے روز کچھ اہل حاجت سید یوسف رضا گیلانی سے ملنے گئے اور مدعا بیان کیا۔ جواب ملا، ہم آپ کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری تو اپنی طلبیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی ایف آئی اے میں اور کبھی عدالتوں میں۔ اقتدار سے محرومی کا جھٹکا کچھ ایسا شدید ہے کہ موصوف سنبھل نہیں پا رہے۔ وزارت عظمیٰ ہی نہیں گئی، اگلے انتخابات کیلئے نااہل بھی ٹھہرے اور جن کی چاہت میں یہ سب کچھ کیا، وہ پہچاننے کے رودار بھی نہیں۔ یہی نہیں، پورے کنبے کو تفتیشی اداروں کی جانب سے نوٹس آرہے ہیں۔ اگلے دن بڑے صاحبزادے عبدالقادر قومی اسمبلی میں تقریر کے لئے اٹھے، تو ضبط کے سب بندھ ٹوٹ گئے۔
دھمکی دی کہ انہیں یوں ذلیل کیا گیا تو برادر خورد علی موسیٰ سمیت نہ صرف ایوان سے مستعفی ہو جائیں گے بلکہ ملک بھی چھوڑ دیں گے۔ ” غضب خداکا، ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنایا اور ہمیں ہی مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کیا ایک ہم ہی غدار رہ گئے ہیں؟ وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے میرے کنٹرول میں نہیں۔ اگر ایسا ہے تو مستعفی کیوں نہیں ہو جاتے؟“عبدالقادر ابھی بچے ہیں۔ نوشتہٴ دیوار پڑھنے کے لائق نہیں ہوئے۔ ورنہ جان جاتے کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا۔ ان کے خانوادہ کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ورنہ جو جون میں حرام تھا، اکتوبر میں حلال کیونکر ہو گیا؟ ملتان اتنا دور اور گوجر خان اتنا قریب کیوں ہو گیا؟ راجہ جی میں وہ کونسی خوبی تھی جس سے ملتان کا سید زادہ عاری تھا؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، سیدھی سادی راج نیتی ہے، وہ راج نیتی جس کے پہلو میں دل نہیں ہوتا، رہیں پیک اپ کرتی اسمبلی میں عبدالقادر اور علی موسیٰ کی نشستیں تو یہ لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں، اور آنے والے انتخابات ان کیلئے بڑی آزمائش ہوں گے۔ سو دوستو! قرائن بتاتے ہیں کہ ملتان کے سید زادے کی قربانی رائیگاں ٹھہری وہ منصب سے بھی گئے اور مستقبل بھی اندھیر۔ اشک شوئی محض اس حد تک ہوئی کہ ایوان صدر کے ایک گوشے میں رہائش کی اجازت مل گئی۔ میزبانی بھاری پڑنے لگی تو مہمان ایک روز چپکے سے اسلام آباد کلب کے ایک سادہ سے کمرے میں جا فروکش ہوا۔ زخموں پر نمک چھڑکنے راجہ جی وہاں بھی جا پہنچے اور بہ اصرار واپس ایوان صدر لے آئے۔ جہاں سے ایک بارپھر نکلے یا نکالے گئے اور اب کے پردیسی کی منزل سندھ ہاؤس تھی، نہ جانے پنگ پانگ کا یہ بے رحم کھیل کب تک جاری رہتا کہ بھولے شا جی معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے اور ملتان مراجعت میں ہی عافیت جانی (اگلے روز زرداری صاحب دلداری کے لئے ملتان تشریف لے گئے اکٹھے کھانا کھایا اور علیحدگی میں بات بھی کی۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ محض سیاسی شعبدے کے سوا کچھ نہیں۔ جسے زیادہ سے زیادہ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنا ہی کہا جا سکتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو اکثر نہایت طمطراق سے فرمایا کرتے تھے کہ وزیراعظم نہ بھی رہوں، غوث پاک کی اولاد تو رہوں گا۔ تو شاہ جی! حوصلہ رکھیں اور کہے کی آبرو بھی ۔ کیا ہوا ہے؟ فقط اقتدار ہی تو گیا ہے۔ مال و منال اور حسب و نسب سب اپنی جگہ پر ہے۔ تو پھر ہنگامہ سا ہے کیوں برپا اور قامت سی کیوں مچی ہے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اللہ والوں کے ساتھ سلسلہ تو جوڑ لیتے ہیں اور اس پر نازاں بھی ہوتے ہیں مگر شیخ سعدی کے اس قول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ ”اولاد ہونے کا دعویٰ وہ کرے جو باپ جیسے اوصاف بھی رکھتا ہو“ بغداد سے نسبت کے دعویدار ملتان کے اس خانوادے کو یقیناً معلوم ہوگا کہ ان کے جد امجد حضرت عبدالقادر جیلانی کو تو جائیداد ، جاگیروں، خانقاہوں اور عہدوں سے ہر گز سروکار نہ تھا وہ تو اپنا سب کچھ غرباء و مساکین پر نچھاور کر دیتے تھے۔ روز کا روز حساب چکتا کرتے اور آخری کوڑی کے خرچ ہونے تک گھر تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ رہے ان کے قریبی اجداد علمدار حسین گیلانی، غلام مصطفی شاہ گیلانی، رضا شاہ گیلانی، راجہ بخش گیلانی وغیرہ تو یہ سب بھی فقیر لوگ تھے۔ خلق خدا کی خدمت کرتے اور ان کے دکھ درد کا مداوا کرتے تھے کیونکہ وہ ”ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد“ کی حقیقت کو پا چکے تھے اور یوں مخدوم کے سابقے کے سزا وار تھے جبکہ یوسف رضا گیلانی کے بقول وہ تو کوئلوں کی دلالی کر رہے ہیں اور پھر بھی اجلا ہونے پر اصرار، حیرت ہے۔
کورٹ کچہری، جیل، اہل سیاست کیلئے کوئی نہیں چیز نہیں۔ عام آدمی ان سے پناہ مانگتا ہے مگر سیاستدانوں کیلئے یہ سب کوالیفکیشن سے کم نہیں۔ وجہ یہ کہ ان کی جیل یاترا بالعموم عوامی کاز کے لئے ہوتی ہے۔ جیل یوسف رضا گیلانی بھی گئے مگر نوکریاں بانٹنے کے جرم میں۔ جیل غالباً ان کے والد بزرگوار سید علمدار حسین گیلانی بھی گئے تھے مگر جمہوریت سے لگاؤ کے جرم میں اور جمہوریت کے جانثاروں کی ایک لاٹ کے ساتھ ایبڈو قرار پائے تھے۔ انہوں نے حج کرپشن کی تھی اور نہ ہی ایفیڈرین کیس میں ملوث تھے۔ قابل نفرین یہ الزامات ان کے پوتوں پر لگے ہیں۔ ایک حج کرپشن کے حوالے سے خبروں میں آئے اور دوسرے پر ایفیڈرین کیس بنا، جس کی پُر پیچ تہیں بتدریج کھل رہی ہیں اور اندرون ملک تشویش کے علاوہ عالمی سطح پر بھی جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہا ہے اور طنطنہ یہ کہ کسی نے موصوف کے طرز حیات پرانگلی اٹھائی تو ترت جواب آیا، کوئی فقیر فقرا نہیں ہوں۔ ہمارا شجرہ نسب اٹھا کر دیکھو۔ ذرا ”ہو از ہو“ کو کھنگالو پشتوں سے سیاست میں ہیں، ہمیشہ کے رئیس ہیں۔ تم ہاتھ پر بندھی ایک گھڑی کی بات کرتے ہو، لاکھوں کی مالیت والی ایسی کئی گھڑیاں میری وارڈ روب میں دھری ہیں۔
جامعہ پنجاب کے ایک صاحب فراست وائس چانسلر علامہ علاؤ الدین صدیقی کہا کرتے تھے کہ ”ہم نے خطبہ حجتہ الوداع کے ساتھ انصاف نہیں کیا، نوع انسانی کے اس عظیم منشور کو پاکستان کے تعلیمی نصاب کی بنیاد ہونا چاہئے تھا۔ اس کی روح پر غور تو دور کی بات ، ہم نے تو اس کی عبارت کو بھی غور سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی“۔ اس سے ملتا جلتا تبصرہ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا بھی ہے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کی بات چلی تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے دہلی کے زمانے کے شاگرد کو خطبہ حجتہ الوداع کے حق میں سفارش کی تھی کہ اس کی شمولیت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو چار چاند لگ جائیں گے۔ بدقسمتی سے تاریخ اسلام کی اس عظیم دستاویز سے استفادہ کی ہمیں تو توفیق نہ ہوئی، البتہ مغرب والوں نے اس سے خوب دریوزہ گری کی اور اس کی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی عظیم الشان عمارت کھڑی کردی۔
کاش حسب و نسب پر اس قدر گھمنڈ کرنے اور اسلاف کے پیچھے چھپنے اور پناہ لینے والے ان لوگوں کی نظر سے آقا و مولیٰ کا وہ عظیم الشان خطبہ گزرا ہوتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر دیا اور تاریخ میں خطبہ حجتہ الوداع کے نام سے محفوظ ہے۔ جو حضور سرور کائنات کی نصیحت بھی ہے اور وصیت بھی، اور دنیا مانتی ہے کہ فلاح انسانی کا اس جیسا چارٹر تخلیق ہوا اور نہ کبھی ہوگا، فرمایا:
”لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ اہل قریش! اللہ نے تمہارے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے لئے فخر کی کوئی گنجائش نہیں“۔
ایسے میں میرا دھیان اسلام آباد کے بلیو ایریا کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے عرفان گیلانی کی طرف چلا جاتا ہے۔ چھ فٹ سے نکلتے ہوئے بے حد اسمارٹ، گورے چٹے اور شستہ مزاج ویٹر نے راقم کو بے حد متاثر کیا تھا۔ بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ ایم بی اے پاس ہے، معقول نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے کے بعد بیرا گیری کر لی کہ بیکاری سے تو یقینا بہتر تھی۔ دل ہی دل میں موصوف کا اپنے بیٹوں سے مقابلہ کرنے لگا۔ جو ماشاء اللہ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھی جابز پر بھی ہیں۔ مجھے آصف میں کوئی کمی دکھائی نہ دی بلکہ بعض حوالوں سے تو مجھے وہ اپنے بیٹوں سے بھی بہتر لگا۔ مجھے تو وہ سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں سے بھی بہتر لگا جو لوگوں کو اسلاف کی عظمت اور شجرہ کی ندرت کی دھونس نہیں دیتا، ذاتی محنت و مشقت سے رزق حلال کما رہا ہے۔ آگے بڑھنے کے سب ٹولز اس کی کٹ میں موجود ہیں، ماسوائے ایک کے کہ غوث پاک کی اولاد ہونے کے باوجود وہ کسی غریب گیلانی کا بیٹا ہے۔
تازہ ترین