• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہدائے 1965ء دھرتی جن کی خوشبو سے آج بھی مہک رہی ہے

موت برحق ہے، ایک دن سب کوہی رب کائنات کی طرف لوٹ جانا ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرنے کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ،جن کی مٹی کی خوشبو ان کے جانے کے بعد بھی دھرتی کو معطر کیے رکھتی ہے، یہی لوگ شہید کہلاتے ہیں۔ یہ شہید دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ ستمبر کا مہینہ ان تمام شہیدوں کی یادوں کے چراغ شدت سے روشن کردیتا ہے، جنہوںنے 1965ء کی جنگ میںدشمن کو ناکوں چنے چبواکر ہمت و بہاردی اور شجاعت واستقلال کی ایسی نظیر قائم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ 

آج ذکر کرتے ہیں 1965ء کی جنگ کے کچھ ایسے شہیدوں کا، جن کی بہادری کے کارناموں سے نوجوان نسل آج بھی اپنےدلوں کو گرما سکتی ہے، ان کے ذکر سے ہی وطن اور پاک افواج سے محبت کا جذبہ ہر پاکستانی کے دل میں جاگ اٹھتا ہے۔ یہ جوان کون تھے؟ آئیے ان پر اور ان کے کارناموں پر اک نظر ڈالتے ہیں۔

میجر ضیاء الدین احمد عباسی شہید

1965ء کی جنگ میں جہاں شجاعت و شہادت کی ان گنت داستانیں تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں رقم ہیں، وہیں 11ستمبر کی رات میجر ضیاء الدین احمد شہید عباسی کا کارنامہ کسی صورت نہیں بھلایا جاسکتا۔ ستمبر1965ءکی جنگ متعدد محاذوں پر لڑی گئی لیکن دشمن کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ میں چوِنڈہ کے محاذ پر ہوا تھا۔ چوِنڈہ کے محاذ پر بین الاقوامی جنگوں کی تاریخ کا ایک شاندار باب پاک فوج کے جوانوں نے رقم کیا،جب اپنے سینوں پر بم باندھ کر وہ دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور انہیں تہس نہس کردیا۔ بھارت برتری کے گھمنڈ میں چور ہوکر اس حملہ کے ذریعے لاہور، گوجرانوالہ شارع کو کاٹناچاہتاتھا۔ 

یہ حملہ ہندوستان کے چار ڈویژن (ایک لاکھ) فوج نے کیا، جن میں ان کا مایہ ناز فرسٹ بکتر بند ڈویژن بھی شامل تھا، جو 300سے زائد ٹینکوں سے لیس تھا۔دشمن کے ناپاک عزائم کامقابلہ میجر ضیاء الدین احمد عباسی شہیدکی قیادت میں ان کے ساتھی مجاہد کررہے تھے۔ میجر ضیاء الدین احمد اور ان کے ساتھی مجاہدوں نے30ٹینکوں کے ذریعےدشمن کے سینکڑوں ٹینک تباہ کردیئے لیکن سپاہیوں کی کمانڈ کے دوران دشمن کی جانب سے داغا گیا ایک گولہ آپ کے جسم سے ٹکرایا اور آپ شہید ہوگئے ۔آگ کی شدت کے سبب آپ کی شناخت مشکل ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ آپ کا مقبرہ نہیں بنایا جاسکا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شہیدوں کے درجات کتنے بلند ہیں۔میجر ضیاء الدین احمد عباسی شہید کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا، جسے آپ کے والد نے وصول کیا۔

بریگیڈیئر احسن رشید شامی شہید

بریگیڈیئر احسن رشید شامی کاشمار بھی پاک فوج کے ان جوانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی سرحدوں اور شہروں کا دفاع کرتے ہوئے ایسے لازوال جنگی کارنامے انجام دیئے جو عالمی جنگوں کی تاریخ کے صفحات کی زینت بنے۔احسن شامی نے ایم بی ہائی سکول ریل بازار سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد کمیشن حاصل کر کے بری فوج میں شامل ہو گئے۔

جنگ ستمبر میں وہ جاسوسی کے لئے کھیم کرن کے محاذ پر بھارتی فوج کے مورچوں میں جاپہنچے۔ یہی وہ موقع تھا جب دشمن گھات لگائے بیٹھے تھے اور جیسے ہی ان کو آپ کا پتہ چلا تو انھوں نےحملہ کردیا اور بریگیڈیئر احسن بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ جرأت اور بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے پرانھیں ہلال جرأت سے نوازا گیا۔

لیفٹیننٹ ندیم احمدخان شہید

لیفٹیننٹ ندیم احمد خان شہیدبھی پاک فوج کے بہادر جواں تھے، جنہوں نے وطن کے دفاع کی خاطر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔ان کا تعلق24 کیولری (ایف ایف) سے تھا انہیں بھی کھیم کرن کا محاذ سونپا گیا تھا، آپ نے اپنے مقصدکو پورا کرتے ہوئے دشمن کے کئی علاقے فتح کیے۔

10ستمبرکے دن جب جنگ کا زور کم ہوا تو آپ کو بھوک ستانے لگی، جس کے باعث آپ نے اپنی گاڑی باغ کے قریب کھڑی کی اور اپنے ماتحت کو باغ سے پانی لینے کیلئے بھیجا۔ اسی دوران دشمن کی جانب سے پھینکا جانے والاایک گولا لیفٹیننٹ ندیم احمد خان کی جیپ کو لگا، جس سے آپ جام شہادت نوش کر گئے۔

پلاٹون کمانڈر محمد شیراز شہید

نامور مصنف ایم آر شاہد اپنی مشہور کتاب شہیدانِ وطن میں جنگ ستمبر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ،’’ 6ستمبر کی صبح ٹھیک 3بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ بارڈر پر ایک گولہ آکر گرا، جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور اس پوسٹ پر بھارت کی جانب سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا، جو ستمبر 1965ءکی تاریخی جنگ کی ابتدا تھی۔ 

لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے دستی بم بھی پھینکنے شروع کردیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی سپاہیوں کو دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور فرنٹ لائن پر دشمن سے نبردآزما سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی اثنا میں محمد شیراز نے دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کا رتبہ حاصل کیا‘‘۔

تازہ ترین