• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6ستمبر 1965ء کوپاکستانی تاریخ میں اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، جو جرأت و بہادری کی داستان ہے۔ اس دن افواجِ پاکستان نے جذبہ شہادت سے سرشار ہوکر وطن عزیز کے دفاع پر قربان ہونے کا عزم کرلیا تھا۔ اس جنگ میں وطن عزیز کی افواج نے عددی لحاظ سے کم ہونے کے باوجود دشمن کے ناپاک عزائم کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیابلکہ انھیں ایسی عبرتناک شکست دی کہ رہتی دنیا تک اس جرأت و استقلال کی مثالیں دی جاتی رہیں گی۔ اس جنگ میں وطن عزیز کی حرمت، عزت، تکریم، سربلندی اور سبز ہلالی پرچم کی حفاظت کیلئے لڑتے لڑتے اپنی جان کا نظرانہ پیش کرنے والوں پر پوری قوم آج بھی ناز کرتی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے لاہور بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وہاں کی سرزمین آج بھی شہیدوں کے مقدس لہو کی خوشبواور ان کے وجود سے معطر ہے کیونکہ یہ خطہ 1965ء کی جنگ کے کئی شہداءکی یادگاروں کا مسکن ہے۔ وہ یادگاریں کون سی ہیں، آئیے ان پرایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

شہید میجر عزیز بھٹی

میجر عزیز بھٹی ستمبر 1965ء کی جنگ میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے اور ملکی دفاع کیلئے بے مثال قربانی اور شجاعت کا مظاہرہ کرنے والے پاکستان کے بہادر سپاہی تھے۔ انھیں ان کے کارنامے اور بہادری کے سبب پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔خطۂ لاہور کو اس حوالے سے ایک خاص مقام حاصل ہے کہ اس خطے میں نشان حیدر کا اعزاز پانے والے پاکستان کے سپوت کی یادگار بنائی گئی ہے۔ یہ یادگار1969ء میں برکی کے علاقےبی آر بی نہر کا پل گزرنے سے پہلے بائیں جانب کی طرف کوئی آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر عین اسی جگہ بنائی گئی ہے، جہاں پاکستان کے اس بہادر سپاہی کو شہید کیا گیا تھا۔ اپنے محاذ پرڈٹے عزیز بھٹی ہر خطرے سے بے نیاز دشمن کا مقابلہ کررہے تھے کہ ایک گولہ ان کے سینے کے آرپار ہوگیا، جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اس جنگ میں شہید میجر عزیز بھٹی کا مورچہ عین اسی جگہ واقع تھا۔ اس یادگارکے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہےجبکہ دائیں اور بائیں طرف شہید میجر عزیز بھٹی کی بٹالین اور رجمنٹ کے شہداء اور ساتھیوں کے نام کنندہ ہیں۔ ساتھ ہی بی آر بی نہر اِن مجاہدوں کو سلام کرتے ہوئے گزر رہی ہے۔ اس یادگار میں شہیدمیجر عزیز بھٹی کا نام، ان کی تاریخ، شہادت اور نشان حیدر کا کتبہ لگا ہے۔ نشان حیدر کی نچلی جانب کندہ یہ خوبصورت مصرعے آنے والے افراد کی توجہ سب سے پہلے اپنی جانب سمیٹتے ہیں۔

غازۂ روئے شہادت،زینت قوم و وطن

سرفروش و غازی و شدادکش مرحب فگن

سرخرو ہوکے جھادفی سبیل اللہ سے

مرد مومن لے رہاہے خواب شیریں کے مزے

یادگار گمنام شہید

ہم اکثر گمنام شہیدوں سے متعلق پڑھتے ہیں لیکن خطۂ لاہور کو اس حوالے سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ وہاں گمنام شہید کی بھی جائے شہادت موجود ہے۔ ایسے شہیداپنے کر دار، جرأت اور بہادری کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ وہ ہر ماں کے بیٹے اور ہر بہن کے بھائی بن کر فخر کا سبب بن جاتے ہیں ۔1965ء کی جنگ بھی ایک ایسے ہی گمنام شہید کے حوالے سے بھی یادگار ہے،ا س شہید کا جسم16ستمبر1965ء کی صبح بی آر بی نہر میں تیرتا ہوا پایا گیا۔ برکی بریگیڈ سیکٹر کے توپ خانےمیں موجود افراد نے اس فوجی کے جسم کو نہر سے نکالا لیکن اس کے بازو پر موجود نمبرپلیٹ نہ ہونے کے سبب رجمنٹ کوڈ اور بٹالین کی پہچان ممکن نہ تھی چنانچہ توپ خانےکے کمانڈر کرنل محمد نواز سیال کی زیر نگرانی اس شہید کے جسد خاکی کو اس نہر کے کنارے دفنادیا گیا،جس پر کتبہ بھی گمنام شہید کی جائے شہادت کے نام سے لگایا گیا ہے۔ یہ مزارِ اقدس برکی نہر کے پل کے کنارے کے دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد میں واقع ہے جو کہ آٹھ فٹ بلند اور چار ستونوں پر ایستادہ ہے، اس پر پختہ چھت بنی ہوئی ہے جس کے نیچے یہ گمنام شہید دفن ہے۔

معرکہ باٹاپور کی یادگار

لاہور پر قبضہ کرنے کا بھارت کا کبھی نہ پورا ہونے والا خواب، جسے معرکہ باٹا پور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس17روزہ جنگ میں پاکستانی افواج کے کئی فوجی جوان شہید ہوئے، جن کی یاد میں لاہورجی ٹی روڈ سے 17کلو میٹر کے فاصلے پر معرکہ باٹا پور یادگار بنائی گئی ہے۔جی ٹی روڈ سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر موجود بی آر بی نہر کے دائیں اور بائیں اطراف کی سڑکوں کے درمیان یہ یادگار جذبۂ شہادت لیے ان فوجیوںکی یاد دلاتی ہے، جنہون نے وطنِ عزیز کے دفاع کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ یادگار پُل پر سڑک کے درمیان سرخ پتھر کی ٹائلوں سے مزین ہے۔ جس پر اردو اور انگلش زبان میں معرکہ باٹا پور کی روداد تحریر ہے، جس کو آہنی جنگلے لگا کر محفوظ کیا گیا ہے۔ 

تازہ ترین