سپریم کورٹ نے حکومت کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ملک میں واپس لانے کے لئے 10 روز میں اقدامت اٹھانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مقدمات میں پیش نہ ہونے کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت سب سے زیادہ پریشان ان لوگوں کی عدم حاضری پر ہو رہی ہے جو بلانے کے باوجود پیش نہیں ہو رہے، کیا ہم اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ عدالتوں کو مطلوب اسحاق ڈار کو واپس نہ لا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک شخص لندن کی گلیوں میں گھوم رہا ہے اور وطن واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہے، عدالت بلائے تو کہتا ہے کہ میرے پٹھوں میں کھنچاؤ ہے، وہ شخص عدالتی احکامات کو خاطر میں لانے کے لیے بھی تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ انہیں واپس نہ لا سکیں، موجودہ حکومت نے اس معاملے میں اب تک کیا کیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے کہا کہ انٹر پول اس معاملے میں فیصلہ لینے کے لیے تین ماہ تک کا وقت لے سکتی ہے، نیب نے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیا ہوا ہے، معاملہ انٹر پول کو بھی بھجوایا ہو ا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پاسپورٹ منسوخ کردیں تو کیا اسحاق ڈار برطانیہ میں رہ سکتے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ سیاسی پناہ لے کر ہی وہاں رہ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پناہ لے لیں، وہاں بتائیں کہ پاکستانی عدالتیں زیادتی کر رہی ہیں اور تو کوئی جواز ان کے پاس نہیں، ڈار صاحب کو ایسی چک پڑی ہے کہ یہاں تو سارا معاملہ ہی مک گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حیرت ہے کہ ایک آدمی جو پاکستان کا وزیر خزانہ رہا، مقدمات میں بھی مطلوب ہے اور کہتا ہے کہ میں نے واپس نہیں آنا۔
عدالت نے اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کے لیے تمام متعلق تمام اداروں کو مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں منگل کے روز دوبارہ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔