• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:۔ ایک اختلافی مسئلے کے متعلق آپ کی تصدیق درکار ہے۔میرے ماموں کو تقریبا ًسال بھر پہلے ایک موذی مرض کینسر کی تشخیص ہوئی،ماموں نے علاج ومعالجہ کروایا ، کچھ رقم خیرات کی اوراپنی ایک بلڈنگ اپنے بیٹے کے نام کردی اوراسے کرایہ وصول کرنے کاکہہ دیا،پھرصحت میں بہتری ہوئی تو ماموں کی نیت بدل گئی اورانہوں نے بلڈنگ واپس لے لی ،مگر اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا ، صحت میں جو بہتری آئی تھی، وہ وقتی تھی اور مرض شروع ہونے کے پانچ چھ ماہ بعد ان کاانتقال ہوگیا۔انتقال کے بعد میرے ماموں زاد کاکہنا ہے کہ بلڈنگ اس کی ملکیت ہے،ہم نے ایک صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ باپ اگر بیٹے کو یا بیٹا باپ کو کچھ دے تو پھر واپس نہیں لے سکتے۔اب یہ مسئلہ اختلافی ہوچکا ہے۔ایک طرف دوسرے وارث ہیں اور ایک طرف بیٹا ہے جوخود بھی بلڈنگ رکھنا چاہتا ہے ۔اس حوالے سے شرعی مسئلہ کیا ہے؟(عثمان احمد،کراچی)

جواب:۔ یہ بات اصولی طورپر درست ہے کہ باپ اگر بیٹے کو کچھ دے یا بیٹااپنے باپ کوکچھ دے تو شےحوالہ کردینےکے بعد اسے واپس نہیں لیاجاسکتا۔شریعت کا یہ اصول صرف باپ بیٹے تک محدود نہیں ہے، بلکہ جو عطیہ یا تحفہ بھی کسی ایسے قریبی رشتے دار کودیا جائے، جس سے خون کا رشتہ ہو اور اس خونی رشے کی وجہ سے اس سے کبھی بھی نکاح نہ ہوسکتا ہو،توپھر ایسے عطیے یا تحفے کو واپس نہیں لیاجاسکتا۔قریبی رشتے دار سے مراد ماں باپ، دادا دادی ،نانا نانی ،بیٹا بیٹی،پوتا پوتی،نواسہ نواسی،بھائی بہن،بھتیجابھتیجی،بھانجابھانجی،چچا ،پھوپھی،خالہ ،ماموں وغیرہ رشتے دار ہیں۔ اس حکم کی علّت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے، جو ہبہ ذورحم محرم کے حق میں کیا جا ئے، اس سے رجوع نہیں کرسکتا۔یہ تو ایک اصولی حکم کابیان تھا، مگرجو صورت آپ نے بیان کی ہے،اس کی نوعیت دوسری ہے۔ماموں نے جس وقت بیٹے کو بلڈنگ دی ،اس وقت وہ مرض ِوفات میں مبتلا تھے۔مرض وفات میں اگر ہبہ کیاجائے تو اس کاحکم وصیت کا ہوتا ہے اور وصیت سے رجوع ہوسکتا ہے ،اس لیےماموں نے اگر بلڈنگ واپس لے لی تھی تو بلڈنگ ماموں کی کہلائے گی اوراب ان کی وفات کے بعد ان کاترکہ ہے جو میراث کے قاعدے سےان کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین