• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو ادب کے ’’صوفی بابا‘‘ اشفاق کی یاد میں

معروف ادیب،دانشور اشفاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے چودہ برس بیت گئے۔ ان کی14ویں برسی آ ج منائی جارہی ہے۔اس سلسلے میںملک بھر کے ادبی حلقوں میں تعزیتی ریفرنسز، سیمینار اور تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا، جس میں اشفاق احمد کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا وہ 7ستمبر 2004ءکو دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اپنے میٹھے الفاظ سے عوام الناس کی اصلاح کرنے والی نابغہ روزگار شخصیت اشفاق احمد ایک دانشور، ادیب، ڈرامہ نویس، تجزیہ نگار، سفر نامہ نگار،براڈ کاسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی منش انسان بھی تھے۔یہ عظیم قلمکار 22اگست 1925ء کو ہندوستان کے شہر فیروز پور کے ایک چھوٹے سے کے ایک پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا پھر اٹلی کی روم یونیورسٹی سے اطالوی اور فرانس کی نوبلے گرے یونیورسٹی سے فرانسیسی زبان کا ڈپلومہ حاصل کیا اور نیویارک یونیورسٹی سے انہوں نے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔اس عظیم سخن طراز کا شمار اُن نامور ادیبوں میں ہوتا ہے جوقیام پاکستان کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے۔اردو ادب میںاشفاق احمد جیسی کہانی لکھنے کا اسلوب کسی اور کے پاس دکھائی نہیں دیتا۔یہی وجہ سے کہ جب1953میں انہوں نے افسانہ ’’گڈریا‘‘ لکھا تو افسانے کو دوام دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔’’ایک محبت سو افسانے‘‘ اور ’’اجلے پھول‘‘ ان کے ابتدائی افسانوں میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی مشہور تصانیف میں ’’ایک محبت سو افسانے‘‘، ’’من چلے کا سودا‘‘، ’’سفر در سفر‘‘، ’’کھیل کہانی‘‘، ’’توتا کہانی‘‘ اور دیگر شامل ہیں۔ عوام میں ریڈیو پاکستان میں ان ’’تلقین شاہ‘‘ کا مخصوص لہجہ اور دھیما پن آج بھی یاد کیا جاتا ہے ۔اشفاق احمد کا شمار سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر کے بعد ادبی افق پر نمایاں رہنے والے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہےقدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کے ادبی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اشفاق احمد کو پرائڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اشفاق احمد کی اہلیہ محترمہ بانو قدسیہ بھی ایک بڑی ادیبہ تھیں۔جب ان کے ڈرامے ’’توتا کہانی ‘‘ اور ’’من چلے کا سودا‘‘ نشر ہوئے توتصوف کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مگر وہ ملامتی طرز کا صوفی منش بابا کوئی پروا کئے بغیر قلم کو اپنے اشارہ ابرو پر چلاتا رہا۔اگر ان کی قصہ گوئی کی بات کی جائے تو کوئی ٹی وی پروگرام ان کے ’’زاویہ‘‘ کی برابری نہیں کر سکتا۔7ستمبر2004ء کو جب یہ صوفی بابا اس دنیا سے رخصت ہوئے تو قوم کو ایک انجمن سے محروم کرنے کیساتھ ساتھ ڈرامہ انڈسٹری کو بھی یتیم کر گئے کیونکہ ان کی وفات کے بعد برسوں تک ہمارا ڈرامہ دوسروں سے مستعار لی گئی کہانیوںپر چلتا رہا۔اشفاق احمد کے جانے کے بعداس قوم کو کوئی ایسا ’’داستان گو‘‘ نصیب نہیں ہوا جو اپنے قصے، کہانیوں سے علم و حکمت، عقل و دانش اور فکرو تدبر کے موتی بکھیرے۔آج ہمیں ان جیسے ڈرامہ نویس، افسانہ نگار اور سخن طراز کی اشد ضرورت ہے جو اپنی راہیں آسان کرنے کی فکر میں غلطاں رہنے کی بجائے اس قوم کی حالت سنوارنے میں اہم کردار ادا کرے۔
عطا الحق قاسمی
اشفاق احمدکی کوئی ایک حیثیت نہیں جس پر ہم بات کر کے فارغ ہو جائیں وہ ا یک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے جب افسانہ لکھنا شروع کیا تو ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ لکھا، جس میں ’’گڈریا‘‘سر فہرست ہے۔ جب ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنا شروع کیا تو یہ ڈراموں کی ایک نئی جہت تھی جو پہلی دفعہ سامنے آئی ۔’’ ایک محبت سو افسانے‘‘ اُن کاایک زبردست سیریل تھا، اسکے علاوہ اُنہوں نے اوربھی کئی مشہور ڈرامے لکھے۔ جن میں پہلی دفعہ طویل مکالمے کئے گئےتھے ۔وہ بھی اپنے اندر ایک جہان فانی رکھتے تھے۔ اشفاق احمد نے افسانوں اور ڈراموں کے علاوہ تصوف پر بھی ایک پروگرام پی ٹی وی سے شروع کیاتھا۔جن میں وہ براہ راست کی بجائے بلاواسطہ طور پر اسلام کی تعبیر پیش کرتے تھے، جو ہمارے بیشتر علما نے ہم تک نہیں پہنچنے دی۔ ان کی ساری باتوں کا محور عبادات کی بجائے روزمرہ زندگی کے معاملات تھے اور ان کا ایک جملہ ہماری زندگی میں شامل ہو گیاکہ ’’اللہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے ‘ ‘۔ صر ف یہ ہی نہیں ان کا ایک لاجواب کام ریڈیو پاکستان سے ’’تلقین شاہ‘‘ کا صوتی ڈرامہ تھا۔جس کی سینکڑوں قسطیں نشر ہوئیں۔ یہ معاشرے میں پائی جانے والی منافقت اور دوسری خرابیوں پر ایک خوبصورت طنز تھا۔ ان سب باتوں کے علاوہ بنیادی بات اشفاق احمد کے بارے میں کہوں تو ان جیسا داستان گو میں نےکہیں نہیںدیکھا، جب وہ کبھی عام موضوع پر تقریر کرتے یا ہم سب کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتے توانکا داستانوی اندازانہیں مسرور انداز میں لے آتا۔ میرے خیال میں اشفاق احمد جیسی شخصیت انکے دور میں اور آج کے دور میں مجھے کوئی دوسری نظر نہیں آتی۔
انورمقصود
اشفاق صاحب کی شخصیت میرے لیے ایک راستہ ہے، جس پر میں چلتارہا ہوں اور پھر وہ میرے لئے منزل بن گئے۔ اُنکی شخصیت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، میںنےکہانی لکھنا سیکھا۔ میں نے اشفاق احمد صاحب کا جب ’گڈریا‘ پڑھا تو وہ ایک بہت بڑا افسانہ تھا، انکا کہانیاں لکھنا اپنے آپ میں ایک مہارت تھی۔ ان کی سادگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی ایک استاد کی حیثیت سے اپنے علم کوبانٹا ۔اشفاق احمد کا نام زندہ رہے یا نہ رہے لیکن انکا افسانہ ’’گڈریا‘‘ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اشفاق احمد صاحب ایک رنگین آدمی تھے، خوش شکل اور بہترین شخصیت کے مالک۔ شروع میں افسانہ نگار ی کی اور اپنے دانشمندانہ انداز سے وہیں سے اللہ کے قریب ہوتے چلے گئے۔ اشفاق احمد صاحب نے ٹی وی کے لیے بھی لکھا اور اس میں بھی بانوقدسیہ نے ان کا ساتھ دیا۔اردو ادب کو انہوں نے اپنی بہت سی تعلیمات سے نوازا ہے۔ میرے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان جیسے علم وفہم اوردانشور سے مجھے سیکھنے کو ملا اور انکی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔
امجد اسلام امجد
اشفاق احمد صاحب ایک عظیم افسانہ نگار، ادبی استاد اور منتظم رہ چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں 50 کی دہائی میں انکے افسانے چھپنا شروع ہوئے تھے اور آخری دہائی میں انہوں نے اپنا رسالہ بھی نکالا تھا۔ ڈرامہ اور افسانہ دو اصناف ہیں جن میں انہیں عبور حاصل تھا۔ اس سب میں بانو قدسیہ بھی انکے ہمراہ تھیں ۔وہ بھی اپنی ذات میںکسی مفکر، دانشور خاتوں سے کم نہیں تھیں۔ ـ’ ایک محبت اور سو افسانے ‘ اپنی جگہ سنگ میل ہے۔ اشفاق احمد صاحب اپنے علم اور ہنر کو اچھے سے پہچانتے تھے۔ اشفاق احمد صاحب جیسا انسان ہماری آنیوالی نسلوں تک کے لیے ایک چھاپ چھوڑ گیا جن کا نعم البدل شاید ہی مشکل سے میسرآئے۔ مجھے اشفاق احمد صاحب کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
گفتگو(طائوس رباب)
تازہ ترین