لندن (مرتضیٰ علی شاہ) پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو 10دن کے اندر لندن سے پاکستان واپس لانے کاحکم دیا ہے لیکن وکلا کا کہنا ہے کہ نیب کیلئے اسحاق ڈار کو جلد پاکستان لانا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اسحاق ڈار کو نکالے جانے کا معاملہ انٹرپول کے پاس زیر غور ہے اور پاکستانی حکومت کو یہ احساس ہے کہ ان کا پاسپورٹ منسوخ کر کے انھیں بے وطن کئے جانے سے اسحاق ڈار ہی کو فائدہ پہنچے گا، اگر پاکستان نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر کے انھیں بے وطن کیا تو وہ 1951 کے جنیوا کنونشن کی دفعہ (1a) کے تحت تحفظ کے حقدار ہوجائیں گے۔ دی نیوز کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار کے پاس برطانیہ کا ویزا موجود ہے اور وہ کسی مسئلے کے بغیر برطانیہ میں مقیم رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ میں ان کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے اور کسی عدالت میں ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا ہے۔ امیگریشن کے وکیل انصار محمود کا کہنا ہے کہ اگر یہ معاملہ برطانیہ کی عدالت میں اٹھایا گیا تو بھی ان کو برطانیہ سے نکالنے کی کارروائی میں طویل عرصہ لگے گا اور اس کے باوجود ان کو برطانیہ سے نکالے جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اسحاق ڈار کے الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں اور جج انھیں پاکستان واپس بھیجنے سے ہچکچائیں گے۔ برطانیہ میں انگلینڈ اور ویلز کی سپریم کورٹ کے وکیل امجد ملک کا کہنا ہے کہ نیب کی عدالت کو کسی ملزم کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر مفرور قرار دے کر اس کی حاضری کویقینی بنانے کیلئے اس کے وارنٹ جاری کرنے کااختیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ مارچ 2018 میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو پرویز مشرف کے عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں ان کاشناختی کارڈ اورپاسپورٹ بلاک کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن جون 2018 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان کا شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بحال کردیا جائے تاکہ وہ واپس پاکستان آسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹرپول نے گزشتہ ہفتے ہی پرویز مشرف کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے سے انکار کردیا، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس طرح کے مقدمات کو کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار کا معاملہ جنرل پرویز مشرف سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ 10A منصفانہ مقدمے کی ضمانت دیتا ہے اور اگر برطانوی وکیل رابرٹ راڈلے اور میموگیٹ کے منصور اعجاز پاکستان ہائی کمیشن لندن سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شہادت دے سکتے ہیں تو اسحاق ڈار سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کی طبی وجوہ ہیں تو اس کی بنا پر ان کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے مزید انتظار نہیں کیا جاسکتا تو ان کو بھی لندن سے گواہی دینے کا کہا جاسکتا ہے۔ اسحاق ڈار کے ایک قریبی ذریعے کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کے پاس یہ ثابت کرنے کے تمام ثبوت موجود ہیں، جس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی پیش کردہ 3صفحات کی رپورٹ، جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے نیب کو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی، بدنیتی پر مبنی تھی۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر یہ شواہد برطانیہ کی عدالت کے سامنے پیش کئے گئے تو اسحاق ڈار یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کے اثاثے قانونی ہیں اور ان کی ذرائع آمدنی سے زیادہ نہیں ہیں اور گزشتہ 34 سال کے دوران ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو پیش کئے گئے گوشواروں کے عین مطابق ہیں۔ اسحاق ڈار گزشتہ سال نومبر میں علاج کی غرض سے برطانیہ آئے تھے اور باقاعدگی سے اپنی میڈیکل رپورٹس پاکستان بھیجتے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گردن کے عقبی حصے کی شدید تکلیف اور معذوری کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ وہ لندن میں ہارلے سٹریٹ میں لندن نیوروسرجری پارٹنر شپ میں زیر علاج ہیں۔ نیب نے 6ہفتے قبل اسحاق ڈار کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے ان کے ریڈ وارنٹ کیلئے انٹرپول سے رابطہ کیا تھا۔