عمران احمد سلفی
فاتح عرب وعجم، سیدنا فاروق اعظم ؓکا شمار کبار صحابہؓ اور اسلامی تاریخ کے مشاہیرمیں ہوتا ہے۔آپ دعائے مصطفیٰﷺ کی دل کش تعبیراورمرادِ رسول ہیں۔آپ کا خاندان عرب میں نہایت ممتاز سمجھا جاتا تھا۔اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ قریش کی نسل میں دس اشخاص نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا اور ان کی نسبت سے دس نامور قبیلے وجود میں آئے۔ جس میں ایک عدی تھے۔ حضرت عمر ؓ انہی کی اولاد میں سے تھے۔ جب کہ عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول اکرم ﷺ کے اجداد میںسے ہیں، اس طرح سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جاکر نبی کریم ﷺسے جا ملتا ہے، آپ کی کنیت ابوحفص اور لقب فارو ق ہے جو دربار رسالت مآب ﷺ سے عطا ہوا، یعنی کفرو اسلام میں امتیاز کرنے والا۔ آپ کو رحمت عالم ﷺ نے اپنے رب سے دعا کے ذریعے مانگا تھا۔ اسی لئے کہا جا تا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓمرید رسول ﷺ تھے، لیکن فاروق اعظم ؓ مراد رسول ﷺہیں ،آپ کو اﷲ سے مانگا گیا تھا، کیوںکہ نبی اکرمﷺ نے دعا کی تھی کہ یا اﷲ ،عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ اس دعا کی قبولیت آپ کے حق میں ظاہر ہوئی۔ آپ ایک روایت کے مطابق ہجرت نبوی سے چالیس برس قبل پیدا ہوئے۔
سیدنا عمر ؓکی عمر ۳۳ برس تھی کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا ،یعنی رحمت کائنات ﷺ مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضر ت عمر ؓ کے گھرانے میں آپ کی بہن فاطمہ ؓ اور بہنوئی سعید ؓ اسلام لا چکے تھے اور خاندان کے معزز شخص نعیم بن عبد اﷲ ؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا اور اسی طرح سعید ؓ کے والد زید ؓبھی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے ۔ البتہ ابھی اسلام آپ کے دل میں گھر نہیں کر سکا تھا، بلکہ عام سرداران قریش کی طرح آپ بھی اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی عداوت کا شکار تھے اور قبیلے کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے ،ان کے سخت دشمن بن گئے تھے۔ایک روز تلوار کمر سے لگائے سیدھے رسول اﷲﷺکی طرف چلے۔ راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اﷲ ؓ ملے ۔ ان کے تیو ر دیکھ کر پوچھا۔ خیر تو ہے؟ بولے کہ فیصلہ کرنے جا رہا ہوں، انہوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے ہیں۔ آپ فوراً چلے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں،آپ کی آہٹ پا کر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزا ءچھپا لئے، آپ نے بہن سے پوچھا ،وہ کیا آواز تھی؟ بہن نے کہا، کچھ نہیں ،بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوںاپنے مذہب سے پھر ہو گئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہو گئے اور جب بہن بچانے آئیں تو ان کی بھی خبر لی، یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہو گئیں ،اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ عمر ؓ جو بن آئے کرو، لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے سیدنا عمر ؓ کے دل پر ایک خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے بدن سے خون رواں تھا۔
یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی ،فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے ،مجھے بھی سنائو۔ بہن فاطمہ ؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر رکھ دئیے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۂ طہٰ تھی۔ ’’سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَھُوَ العَزِیْزُ الْحَکِیم ‘‘ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہو تا تھا، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے ۔’’ اٰمِنُوا بِاﷲِ وَرَسُولہٖ ‘‘توبے اختیار پکار اٹھے’’ اَشْھَدُ اَن لَا اِلٰہ اِلَّا ﷲُ وَاَشھَدُ اَنَّ مُحُمد رَسُوْل ﷲ‘‘۔ یہ وہ دور تھا جب رسول اکرم ﷺدارا رقم میں جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا پناہ گزیں تھے۔ سیدنا عمر ؓ آستانہ مبارک پر پہنچے اوردستک دی تو صحابہ ؓکو تردد ہوا۔ سیدنا حمزہ ؓ نے کہا، آنے دو ،مخلصانہ آیا ہے تو بہتر، ورنہ اسی کی تلوار سے سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے تو رحمت عالم ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: کیوں عمر ؟ کس ارادے سے آئےہو؟ نبوت کی بارعب آواز نے انہیں کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا۔ ایمان لانے کے لیے ،نبی رحمت ﷺ بے ساختہ اﷲ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اﷲ اکبر بلند کیا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ آپ کے اسلام لانے سے قبل متعدد افراد حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے۔ نیز عرب کے مشہور بہادر سیدنا حمزہ ؓ بھی دعوت حق قبول کر چکے تھے، تاہم مسلمان اپنے مذہبی فرائض علانیہ ادا نہیں کرسکتے تھے اور بیت اﷲ میں نماز ادا کرنا تو بالکل نا ممکن تھا، سیدنا عمر ؓ کے اسلام کے ساتھ ہی دفعتہً یہ حالت بدل گئی اور انہوں نے علانیہ اپنا اسلام ظاہر کیا ،کافروں نے ابتداً ان پر بڑی شدت کی، لیکن وہ ثابت قدمی سے مقابلہ کر تے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے رحمۃ للعالمین ﷺ کی اقتداء میں بیت اﷲ میں نماز ادا کی اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی غیر مناسب حرکت کر سکے۔ حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ نبوت کے چھٹے سال ہوا۔ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور دعوت توحید و رسالت رفتہ رفتہ پھیلنے لگی۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی ساری زندگی ، جہاد اور حق و باطل میں فرق وامتیاز سے عبارت رہی ہے، زندگی میں بھی قدم قدم پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے اورشہادت کے بعد بھی روضۂ اطہر کے جوار میں آپ ﷺ کے رفیق بننے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔