پیغمبر ِ آخر و اعظم ،سرورِ کونین،امام الانبیاء ،سیدالمرسلین ،خاتم النبیین،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، تم (ان میں سے)جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پا جائو گے۔‘‘ تمام ہی صحابہؓ عشق و محبّت کے پیکر اور ایثارو وارفتگی کا مقدّس نمونہ ہیں۔ تمام صحابہؓ جہاں بھر سے افضل و اعلیٰ ہیں، لیکن چند چیزوں میںمرادِ رسولﷺ، سیّدنا عمر بِن خطّابؓ تمام صحابہؓ میں ممتاز ہیں، ان میں آپ کا عدل و انصاف، آپ کی رائے کا وحی اور قرآن کے موافق ہونا، آپ کی شجاعت و دلیری، اللہ اور اس کے رسول ﷺکے معاملے میں کسی کا پاس نہ کرنا، قابل فخر اور شان دار دینی و مذہبی خدمات ،رعایا کی خبر گیری خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بےشک، تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے ،جنہوں نے اللہ سے صرف ہم کلامی کا شرف پایا ،لیکن وہ نبی نہ ہوئے، میری امت میں اگر کوئی ایسا (نبی)ہوتا تو وہ عمرؓہوتے۔(صحیح بخاری )رسول اللہ ﷺنے یہ بھی ارشادفرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبوت کا مقام پا سکتا تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے۔(مستدرک حاکم)ایک اورموقع پرسرکاردوعالم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نےعمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے، وہ حق بات ہی کہتے ہیں۔ (مشکوٰۃ )
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اُن دس صحابہ میں سے ہیں، جن کے جنتی ہونے کی بشارت حضور ﷺ نے دی ہے۔ وہ حضرت عمرؓ کے بارے میں کہتے ہیں: خدا کی قسم ، عمرؓ اسلام لانے میں گو ہم سے پہلے نہیں اور نہ ہی ہجرت کرنے میں ہم پر مقدم ہوئے ،مگر میں خوب جانتا ہوں کہ کس چیز کے سبب وہ ہم سے افضل ہیں، وہ ہم سے آگے اس لئے بڑھ گئے کہ وہ سب سے زیادہ دنیا سے بے تعلق تھے ۔(ازالۃ الخفاء )حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓبھی رسول اللہ ﷺکے جلیل القدر صحابہؓ میں سے ہیں، حضورﷺ کی احادیث لکھنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی۔ آپ حضرت عمرؓ کے بارے میں فرماتے ہیں، حضرت عمرؓ بہت جلیل القدر انسان تھے، ایک مرتبہ آپ نے حضرت عمرؓ کے لئے دعائے رحمت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد حضرت عمرؓ سے زیادہ خوف خدا رکھنے والا کسی کو نہیں پایا۔ (کنزالعمال )
اسلام کے گلشن کو جن شہدائے اسلام نے اپنا قیمتی خون دے کر سدا بہار کیا، ان میں امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظمؓ کا اسمِ گرامی سرِفہرست ہے، آپؓ کے قبول اسلام کے لیے خود رسول اللہﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی ’’اے اللہ، اسلام کو عمر بِن خطّابؓ، یا عمرو بن ہشام کے ذریعے عزت دے۔‘‘خلیفۂ دوم،مرادِ رسول ؐ، شہیدِ محراب سیدنا فاروق اعظم ؓ کا نام نامی اسم گرامی عمر ‘فاروق اعظم لقب، والد کا نام خطاب تھا۔آپ علم الانساب میں ماہرتھے، نیز آپ کا شمار قریش کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ فن خطابت کے بھی ماہر تھے۔ ذریعہ معاش تجارت تھا۔ اپنی آمدنی کا بیش تر حصہ فقرا‘ غلاموں، مسکینوں، مسافروں، ضرورت مندوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اپنی بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعید بن زیدؓ کی استقامت سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ دراصل آپ ﷺ کی اس دعا کا اثر تھا: اے اﷲ، اسلام کو عمر و بن ہشام (ابوجہل) یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت عطا فرما‘‘ اسی وجہ سے آپ مراد رسول ؐ کہلاتے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا 40واں نمبر ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے دین اسلام کو نئی قوت عطا ہوئی۔آپ کاشمارمہاجرین میں ہوتاہے اورآپ نے 20 افراد کی معیت میں13 نبوی میں مدینہ منورہ ہجرت کی اور قبا میں حضرت رفاعہ بن منذرؓ کے مکان میں قیام فرمایا۔حضرت فاروق اعظم ؓ قبول اسلام کے بعدتمام غزوات میں بنفس نفیس شریک ہوئے اورجرأت وبہادری کے جوہردکھائے۔غزوۂ بدر میں قریش کے سرغنہ کو قتل کیا ‘غزوہ اُحد میں آخر دم تک ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ،غزوۂ خندق میں خندق کے پارکفار کے حملوں کو پسپا کیا‘ غزوۂ خیبر میں قلعہ و طیع و سالم کو فتح کرنے کے لئے حضرت صدیق اکبر ؓ کے بعد آپ کو بھیجا گیا،فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے خواتین سے بیعت لینے پر مامور فرمایا ،غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنے گھر کا آدھا مال لاکر خدمت اقدس میں پیش کردیا۔ غرض آپ تمام غزوات میں پیش پیش رہنے والوں میں شامل تھے۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں: تقریباً بیس بائیس مقامات ایسے ہیں جہاں فاروق اعظمؓ کی رائے پروردگار کی منشا کے عین موافق تھی ۔
خلیفہ بلافصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد خلیفۃ المسلمین مقرر ہوئے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے امور خلافت چلانے کے لیے مہاجرین وانصار کی مجلس شوریٰ قائم کی۔اس حیثیت سے آپ اسلام کے شورائی نظام کے بانی ہیں۔ ملک کوآٹھ ڈویژنوں میں تقسیم کرکے ان پر حاکم اعلیٰ اور گورنر زمقرر فرمائے۔ کاتب‘کلکٹر ‘انسپکٹر جنرل پولیس ‘افسر خزانہ ‘ملٹری اکائونٹنٹ جنرل اور جج وغیرہ کے عہدے مقرر کیے۔باقاعدہ احتساب کانظام قائم فرمایا۔زراعت کی ترقی کے لیے نہری نظام جاری فرمایا، تالاب اورڈیم بنوائے اور آب پاشی کا ایک مستقل محکمہ قائم فرمایا۔بنجرزمینوں کے آباد کاروں کو مالکانہ حقوق دیے۔سرونٹ کوارٹرز‘ فوجی قلعے اور چھائونیاں ‘سرائے ‘مہمان خانے اور چوکیاں قائم کرائیں۔ کوفہ ‘فسطاط‘ حیرہ اور موصل سمیت کئی عظیم الشان شہروں کی بنیاد رکھی اور انہیں آباد کیا۔فوج اور پولیس کے نظام میں اصلاحات کیں اور انہیں منظم کیا۔ بہترین نظام عدل و انصاف قائم کیا،جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سن ہجری کی بنیاد رکھی۔مساجد کے ائمہ ‘ موذنین ‘فوجیوں اور ان کے اہل خانہ واساتذہ وغیرہ کی تنخواہیں مقرر فرمائیں۔ اس کے علاوہ مردم شماری‘زمین کی پیمائش کا نظام ‘جیل خانے‘ صوبوں کا قیام،لاوارث بچوں کے وظیفے کا اجرا‘ مکاتب قرآنی کا قیام‘ نماز تراویح کا باقاعدہ آغاز وغیرہ آپ رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کی یادگاریں ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ نے بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی اور آپ کی مدت خلافت تقریباً ساڑھے تیرہ سال بنتی ہے۔
عراق اورشام پر لشکر کشی کرکے اسلام کا علم لہرایا۔ ایک لشکر بھیجا ،جس نے مجوسیوں کو عبرت ناک شکست دی اور رستم کی سازشوں کا قلع قمع کیا۔ جنگ قادسیہ کے تین کامیاب معرکوں نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی‘ ان کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاص ‘نعمان بن مقرن اور قعقاع بن عمروالغفاری رضی اﷲ عنہم نے کی۔ جنگ نہاوند آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں لڑاجانے والاآخری معرکہ تھا ،جس نےدشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ دمشق ‘اردن ‘حماۃ ‘شیراز‘ معرۃ النعمان‘ بعلبک ‘حمص ‘شام کا اکثر حصہ‘ بیت المقدس اور اس کے آس پاس کے علاقے ‘مصر، فسطاط‘ اسکندریہ‘ قیساریہ‘ آذربائی جان ‘طبرستان ‘کرمان‘ مکران اور خراسان وغیرہ آپ رضی اﷲ عنہ کے دورخلافت میں فتح ہوئے۔
ایران کااکثرحصہ چوں کہ آپ کے دورخلافت میں فتح ہوا،جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے جذبہ انتقام کو سرد کرنے کے لیے آپ رضی اﷲ عنہ کے قتل کی سازش تیار کی۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کےپارسی غلام ابولو لو فیروز مجوسی نے نماز فجر کی پہلی ہی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد زہر سے بجھے ہوئے خنجر سے مرادِ رسول ﷺ پروار کیا۔ وصیت کے بہ موجب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ نے نماز مکمل کرائی۔ تین روز زخمی حالت میں رہ کر یکم محرم الحرام 24ھ میں63 برس کی عمر میں آپ رضی اﷲ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت صہیب رومی رضی اﷲ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ روضہ رسول ﷺ میں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔