• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات کے دن جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں، افواہوں، وسوسوں اور پارلیمینٹ کے درمیان ”آخری معرکے“ میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دیئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کبھی حکومت اور فوج کے بیچ ”تناؤ“ کو خطرے کا سرخ نشان عبور کرتے دکھایا جا رہا ہے اور آج کل اصغر خان کیس میں سابق فوجی جرنیلوں کو مجرم قرار دینے اور آرمی چیف جنرل پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے عدلیہ ا ور فوج میں اختلاف رائے کے پیش نظر سارے جمہوری نظام کے انہدام کے خطرے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمہوری نظام کے تسلسل کے ضمن میں عوام و خواص میں اس طرح کے شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے کیونکہ پاکستان میں کسی بھی سویلین حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنا ایک ”معجزہ“ اور ”ان ہونی“ بات ہے جو آج تک وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ یہ ”ان ہونی“ بات اس وقت بھی ممکن نہ ہوسکی۔ جب پوری قوم ایک فوجی حکومت کے دور میں رونما ہونے والے ملک ٹوٹنے کے اذیت ناک اور تاریخی سانحے کے بعد یہ توقع لگائے بیٹھی تھی کہ اب کوئی طالع آزما، فوجی ڈکٹیٹر قوم کو دوبارہ اس عذاب میں نہیں ڈالے گا جو قومی یکجہتی کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا تھا لیکن یہ امید نقش بر آب ثابت ہوئی اور اس وقت جب ذوالفقار علی بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں قوم اپنے جمہوری سفر کا از سر نو آغاز کر چکی تھی اور 25سالوں کے بعد 73میں ایک متفقہ آئین بنانے کے بعد اس کی پناہ گاہ میں خود کو محفوظ سمجھ رہی تھی۔ کچھ طالع آزماؤں نے اسے تیسری مرتبہ دربدر کر دیا۔ آئین کے خالق جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی طاقت کے زعم میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ”اب ہم نے ہمیشہ کے لئے فوجی آمریت کو بحیرہ عرب میں غرق کر دیا ہے“ لیکن چند ہی سالوں کے بعد پور ی دنیا نے دیکھا کہ آمریت نے جمہوریت، آئین اور اس کے خالق کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہی حال جنرل پرویز نے میاں نواز شریف کی ہیوی مینڈیٹ والی حکومت کے ساتھ کیا۔ طویل صدمات، ناکامیاں اور محرومیاں افراد کے ساتھ قوموں کی نفسیات کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں اور بعض اوقات افراد کی طرح قومیں بھی ”ناامیدی“ کے مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ دوران گفتگو اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جمہوریت کے قابل نہیں… یا جمہوریت ہمارے مزاج کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں ”نااہلیت“ سے زیادہ ماضی کی ”ناکامیوں“ کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہماری کیفیت کرکٹ کے اس پلیئر کی مانند ہے جو کئی مرتبہ سنچری کے قریب آکر آؤٹ ہو جاتا ہے اور اپنی پہلی سنچری بھی نہیں بنا پاتا۔ اس کیفیت کو نروس نائنٹی کہتے ہیں۔ اس حالت میں وہ جیسے جیسے نوے سے سو کی طرف بڑھتا ہے تواس کے وسوسے، خدشات اور خطرات بڑھنے لگتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے گزشتہ جمہوری ٹورنامنٹس میں جانبدارانہ ایمپائرنگ اور متعصب انتظامیہ ہماری ناکامی کا باعث تھیں لیکن انہوں نے ہمارے اعتماد کو اس قدر ہلا کر رکھ دیا کہ پہلے سے بہت بہتر حالات، غیر جانبدار ایمپائرز اور ہمدرد انتظامیہ کے باوجود ہم نروس نائنٹی کا شکار ہوگئے ہیں۔
میرے خیال کے مطابق جمہوری عمل کے تسلسل اور ملکی استحکام کے حوالے سے پاکستان ”خوش قسمتی“ کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے ہمارے خدشات اپنی جگہ لیکن گزشتہ ساڑھے چار سال کے واقعات یہ بتا تے ہیں کہ اس وقت جو شخصیات ملکی معاملات میں فیصلہ کن کردار کی حامل ہیں۔ وہ ہماری ملکی تاریخ اور عالمی سیاسی حالات کے پیش نظر اپنے اپنے طور پر اس ”حقیقت“سے پوری طرح آگاہ اور متفق ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کو رواں دواں رہنا چاہئے اور یہی پاکستان کی بقاء اور استحکام کا واحد راستہ ہے کیونکہ ماضی میں ”معروف جمہوریت“ کی بجائے پاکستان میں ہر طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف 47کے پاکستان کو دو لخت کر دیا بلکہ بقیہ پاکستان کو بھی خطے کا سب سے پسماندہ اور شورش زدہ ملک بنا دیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران متعدد مرتبہ ایسے مواقع آئے۔ جب لگتا تھا کہ جمہوری بساط آج لپٹی کہ کل لپٹی لیکن ہر مرتبہ ناامیدی نے امید کو جنم دیا اور ہر بحران بخیر و خوبی گزر گیا۔ حالانکہ ہماری تاریخ میں طالع آزماؤں نے بغیر بحرانوں کے بھی سیاسی حکومتوں کے تختے الٹ کر خوفناک بحران پیدا کر دیئے تھے۔ ہم آج تک ان سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور ان کے حواریوں کے سیاہ کارناموں کا ماتم کرتے آئے ہیں جنہوں نے ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دیا اور جو اپنے ذاتی یا اپنے آقاؤں کے مبینہ مفادات کی خاطر ہماری قومی وحدت پر ضربیں لگاتے رہے لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر معاملے میں ”سازشی تھیوری“ ڈھونڈھنے کی بجائے دل کھول کر اپنے آج کے اہم ملکی اداروں کے سربراہوں کی اس بات پر تعریف و توصیف کریں۔ کہ وہ ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا کارنامہ سر انجام دینے کے قریب ہیں جو نہ صرف ہمیں دنیا میں مہذب اور قابل احترام قوم کا مقام دلائے گا۔ بلکہ ہماری بقا اور استحکام و ترقی کا ضامن بھی ہوگا۔ جب تک انسان زندہ ہے اس کے مسائل چلتے بھی رہتے ہیں اور حل بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن مسائل کی الجھی ہوئی ڈور کو سیدھا کرنے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ڈور کے سرے کو تلاش کرنا ہوتا ہے جس نے سرے کو تلاش کرلیا گویا اس نے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی بنیاد رکھ دی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ارباب بست و کشاد نے ”جمہوری عمل کے تسلسل“ کی شکل میں وہ سرا ڈھونڈھ لیا ہے جس سے جلد یا بدیر ہمارے گھمبیر مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے ہمارے ہر ادارے کو اپنے اوپر لگے ماضی کے داغ دھونے کا نادر موقع مل رہا ہے چاہے آج لوگ صدر زرداری، اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف، عدلیہ کے سربراہ جسٹس افتخار محمد چودھری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ماضی اور حال کے کردار اور فیصلوں پر کتنی ہی نکتہ چینی کیوں نہ کریں جونہی اپنے مقررہ وقت پر ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار نومنتخب جمہوری نمائندوں کو منتقل ہوگیا تو یہی شخصیات اپنے ماضی کے متنازعہ کرداروں کے باوجود مستقبل کی ان قابل احترام شخصیات کا روپ دھار لیں گی جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان اس سنگ میل کو عبور کر لے گا جس کے وہ آج تک قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ اس تاریخی کریڈٹ کے حصول میں اب چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور صدر زرداری کے پاس اس سے بڑھ کر اور کیا کریڈٹ ہوسکتا ہے ،تمام تر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باوجود پاکستان کی پہلی سویلین حکومت اگر اپنی معیاد پوری کرلے۔ میاں نواز شریف کا اس سے بڑھ کر اور کارنامہ کیا ہوگا کہ ا نہوں نے ہر طرح کے لالچ اور دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوری عمل کو چلنے دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لئے اس سے بڑھ کر باعث افتخار اور کیا چیز ہوسکتی ہے کہ انہوں نے اصولوں پرسب سے اختلاف کیا لیکن جمہوریت کے محافظ کی حیثیت سے انہوں نے سب کو جمہوریت کا احترام کرنا سکھایا جمہوریت کے تحفظ کے معاملے پر ان کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔
اس حوالے سے سب سے بڑا اور مثبت کردار آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ہوگا جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے آرمی چیف کے عہدے کو وہ عزت اور وقار حاصل ہوگا جس سے وہ آج تک محروم رہا ہے۔ وہ اگر چاہتے تو انہیں کئی ایسے مواقع حاصل ہوئے تھے جہاں وہ اپنے پیش رو جرنیلوں کے اتباع میں اقتدار پر قبضہ کرسکتے تھے لیکن اس خاموش، کم گو، سنجیدہ اور متین جرنیل نے نہایت مہارت اور ثابت قدمی سے اپنے ادارے کے اندر اور باہر ان عناصر کے دباؤ، لالچ اور طعنہ زنی کا مقابلہ کیا جو انہیں طالع آزمائی پر اکساتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دفاعی اداروں کو غیر سیاسی بنانے کے جس عمل کا آغاز کیا ہے۔ اس نے نہ صرف جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو حق بجانب قرار دے دیا ہے بلکہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار کو پہلی مرتبہ ایک پروفیشنل آرمی کے سپہ سالار کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
جنرل کیانی تاریخی شعور اور سیاسی بصیرت کی حامل ایک ایسے پرعزم شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اپنی تاریخ کے ان سانحوں سے پوری طرح آگاہ ہے جو سیاست میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں پیش آئی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی سربراہی میں ہیں کہ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں آرمی چیف کے عہدے کی شکل میں سب سے اونچا اور اس عہدے کو غیر سیاسی رکھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ قابل احترام مقام حاصل کرلیا ہے جسے وہ سیاسی مداخلت کی آلودگی سے کبھی خراب نہیں کرنا چاہیں گے… تاریخ چند ماہ کے بعد انہیں جو کریڈٹ رہتی دنیا تک دینا چاہتی ہے وہ کسی بھی وقتی جذبے ، خواہش یا لالچ کی وجہ سے اس سے محروم نہیں ہوناچاہیں گے۔ صدر تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن لڑ کر بھی بن سکتے ہیں ۔
جناب آصف علی زرداری، جناب میاں نواز شریف، جناب جسٹس افتخار محمد چودھری اور جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی ! آج سے چند ماہ بعد آپ سب کو ہماری قومی تاریخ میں جو اعزاز ملنے والا ہے۔ وہ ایک بے مثال اور تاریخی اعزاز ہے جس کی اہمیت کا اندازہ شاید آج کسی کو بھی نہیں۔ مختصراً آپ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور تاریخ آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
تازہ ترین