خواتین کی آمدورفت میں سہولت فراہم کرنے والی سروس "روشنی رائیڈز" متعارف کرادی گئی ہے ۔ یہ سروس خواتین کے لیے سفر میں مددگار ہوگی اورانھیں کسی بھی مشکل سے بچانےمیں ممدومعاون ہو گی۔
روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے پھیلاؤ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی اور ٹریفک کے اژدھام کی موجودہ صورتحال خواتین کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اگرچہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر آمدورفت کے لئے نت نئی سہولیات متعارف کروائی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔
روشنی رائیڈز نہ صرف خواتین کوسفری سہولتوں میں مدد فراہم کریگی بلکہ ان کو محفوظ سواری بھی فراہم کریگی۔یہ بات آج ہونے والے ایک پینل ڈسکشن میں بتائی گئی۔جس میں رین ٹری اسپاکی بانی اور سی ای او لبنٰی لکھانی ، فیمینسٹ ریسرچر اور پروفیسر ،حبیب یونیورسٹی کراچی محترمہ عافیہ ضیاء، آدم جی اکیومن فنڈ کی رکن اور مصنفہ و آرٹسٹ محترمہ رقیہ دیوان ،پونپنجے کی سی ای او صباء گل اور کیئر میناکی ڈائیریکٹر عائشہ کریاپارشامل تھیں۔
روشنی رائیڈز چار پاکستانی نژاد امریکیوں جیا فاروقی(سی ای او )، منیب میاں(سی ایف او)، حسن عثمانی (سی او او)اور ہانا لاکھانی(سی ایم او )نے مل کر بنائی ہے۔
یہ چاروں امریکہ میں زیر تعلیم ہیں اور اپنی سماجی ضرورتوں کےحوالے سے کراچی آئے ہوئے ہیں۔
روشنی رائیڈز نہ صرف خواتین کو سواری فراہم کریں گی بلکہ ان کو مناسب کرایہ میں دستیاب بھی ہوگی ۔
گزشتہ سال روشنی رائیڈرز کی ٹیم نے ہلٹ پرائز کے لیے اپنے اختراعاتی پروگرام کو پیش کیا جہاں ان کا دیگر پانچ ٹیموں سے سخت مقابلہ ہوا تاہم یہ انعام ان کی ٹیم کے حصے میں آیاتھا۔ رٹگرز یونیورسٹی کے تحت ہر سال منعقد کئے جانے والے ہلٹ پرائز میں ایک ملین ڈالر کی رقم دی جاتی ہے۔ اسے دنیا بھر میں طالبعلموں کے درمیان ایک اہم ترین مقابلہ سمجھا جاتا ہے جس میں طلبا و طالبات معاشرے میں سماجی بہتری کے لیے مختلف اور انوکھے خیالات پیش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ٹیم گزشتہ سال مئی تک انٹرنیٹ پر کراؤڈ فنڈنگ کے تحت 30 ہزار ڈالر جمع کر چکی تھی اور موسمِ گرما میں اورنگی میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کی روداد فیس بک پر پوسٹ کی جاتی رہی تھی۔ٹیم نے پہلے اورنگی ٹاؤن کا دورہ کیا اور وہاں مرد و خواتین سے ان کے مسائل معلوم کرنے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ وہاں ٹرانسپورٹ ایک اہم مسئلہ ہے، کیونکہ یہاں کی گلیاں تنگ اور پیچیدہ ہیں جہاں بسیں اور کاریں نہیں جا سکتیں۔ اسی لیے باہر تک آنے کے لیے انہیں 30 سے 45 منٹ تک سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے روزانہ تین سے چار سواریاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں جس کے اخراجات بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ماہانہ آمدنی کا ایک بڑا حصہ اسی پر خرچ ہو جاتا ہے۔
اسی بنا پر ٹیم نے چھوٹے الیکٹرک رکشے متعارف کرائے ہیں جو روایتی بجلی کی بجائے شمسی پینلوں سے چارج کیے جاتے ہیں۔ اسطرح یہ منصوبہ ماحول دوست اور صاف توانائی استعمال کرتا ہے۔
اس کاوش کی بنا پر انہیں ہلٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے رقم دی گئی تھی۔