سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سب نے یہ رائے دی ہے کہ بیگم کلثوم نواز ایک بہت سلجھی ہوئی اور شائستہ خاتون تھیں۔ انہوں نے بڑی بہادری سے مہلک بیماری کا مقابلہ کیا۔ باوجود اس کے کہ ان کے شوہر نوازشریف کئی برس وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہے مگر کبھی بھی ان کے بارے میں چھوٹی سی بھی شکایت سامنے نہیں آئی کہ انہوں نے کسی قسم کی سرکاری امور میں مداخلت کی یا کسی کو فیور یا ڈس فیور کرنے کا کہا۔ وہ ہمیشہ ایک گھریلو خاتون ہی رہیں جن کی ساری توجہ فیملی کو بلڈ کرنے اور اکٹھا رکھنے پر مرکوز رہی۔ وہ سیاست سے ہمیشہ دور رہیں سوائے 12اکتوبر 1999ء سے لے کر 10دسمبر 2000ء تک جب سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد پرویز مشرف کے قیدی تھے۔ بیگم کلثوم نے اس عرصہ کے دوران جس انداز سے سیاست کی وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ پرویز مشرف کے اقدامات کی وجہ سے بہت دکھی تھیں مگر کبھی بھی ان کی زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلا جو کہ شائستگی کے دائرے سے باہر ہو۔ وہ پرویز مشرف پر تنقید کے تیر برساتی رہیں مگر بڑے سلجھے انداز میں۔ شریف فیملی کا کوئی بھی ممبر شاید اتنی بھرپور کمپین نہ چلا سکتا جتنی کہ انہوں نے چلائی۔ جب بھی نوازشریف جیل سے باہر رہے بیگم کلثوم سیاست سے مکمل طور پر کنارہ کش رہیں مگر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو سیاسی مشورے دیا کرتی تھیں۔ نوازشریف اور بیگم کلثوم کی جوڑی مثالی تھی 47سال ان کی رفاقت رہی اور کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ میاں بیوی میں کوئی تلخی پائی جاتی ہے۔ جس طرح کی خاموشی بیگم کلثوم نے ہمیشہ پاکستان میں اختیار کی اسی طرح ان بیرونی دوروں جو انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ کئے قائم رکھی۔ وہ تین بار خاتون اول رہیں مگر ان میں تکبر نام کی چیز موجود نہیں تھی اور وہ کبھی بھی ہائی پروفائل فرسٹ لیڈی نہیں تھیں۔
خالق حقیقی کے پاس جانا برحق ہے کوئی انسان چاہے کتنا ہی اچھا ہو یا برا، مہذب ہو یا بد تہذیب، نیک ہو یا بد، کمزور ہو یا طاقتور، حاکم ہو یا محکوم اسے آخرت میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ بیمار کیلئے دعا کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے شوہر کی سیاست کی وجہ سے بیگم کلثوم کی بیماری کا بھی بعض عاقبت نااندیش حضرات نے تمسخر اڑایا مگر اب ان کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں۔ جب تین بار خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم لندن کے اسپتال میں بستر مرگ پر تھیں تو یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ دراصل بیمار ہی نہیں ہیں اور شریف فیملی اپنی سیاست کیلئے یہ سب ’’ڈرامہ بازی‘‘ کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکے۔ کچھ نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ بیگم کلثوم دراصل کافی عرصہ پہلے انتقال کر چکی ہیں مگر اس کا اعلان نہیں کیا جا رہا۔ بیگم کلثوم کی وفات کے بعد بھی کچھ بد بخت سوشل میڈیا پر گندگی پھیلا رہے ہیں ان کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ ان کو ہدایت دے۔ نا صرف عام لوگوں بلکہ ان تمام حضرات کو بھی یقین تھا کہ بیگم کلثوم واقعی موذی مرض میں مبتلا ہیں مگر وہ اپنی عادت کی وجہ سے مجبور تھے کہ وہ بیکار باتیں کریں اور نوازشریف کی سیاست کو نشانہ بنائیں۔ ہمارے ہاں تو اتنی زیادہ سیاسی گراوٹ ہو گئی ہے کہ یہ یقین دلانے کیلئے کہ کوئی واقعی سخت بیمار ہے اسے مرنا پڑتا ہے۔ سیاسی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ چاہے کوئی بادشاہ ہے یا فقیر اسے ایک دن اس دنیا سے جانا تو ہے ہی اور پھر ہو گا یوم حساب جس میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی نیکی اور برائی گنی جائے گی۔ نوازشریف پر پہلے ہی کڑا وقت تھا جس کا آغاز 28 جولائی 2017ء جب انہیں وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ ان کے معزول ہونے کے دو ہفتے بعد ہی بیگم کلثوم کو تشویشناک بیماری کی وجہ سے اچانک لندن لے جایا گیا جہاں کینسر تشخیص ہوا۔ نوازشریف پہلے ہی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے کہ اوپر سے اپنی زوجہ کی بیماری نے ان کے دکھوں میں اضافہ کر دیا۔ انہیں اسلام آباد اور لندن کے درمیان بار بار سفر کرنا پڑا تاکہ وہ بیگم کلثوم کی صحت کے بارے میں بھی جان سکیں اور احتساب عدالت میں مقدمات کا سامنا بھی کرتے رہیں یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ انہوں نے کئی بار احتساب عدالت سے حاضری سے استثنیٰ مانگا مگر ایک دو بار ہی دیا گیا۔ اگر لندن فلیٹس والا کیس چلتا رہتا تو وہ کچھ عرصہ مزید اپنی زوجہ کے ساتھ گزار سکتے تھے مگر اس مقدمے میں ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ کر دیا گیا پھر ان کے پاس سوائے اس کے کہ وہ فوراً واپس آئیں کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ ان کے مخالفین پاکستان میں طعنہ زنی کر رہے تھے کہ وہ ملک نہیں لوٹیں گے بلکہ ایک صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ سابق وزیر اعظم لندن میں سیاسی پناہ لے لیں گے، تاہم نوازشریف نے ان سب کو جھوٹا ثابت کیا اور وہ اور ان کی دختر مریم مریضہ کو اسپتال میں چھوڑ کر گرفتاری دینے پاکستان آگئے۔ جس طرح کے حالات کا نوازشریف اور ان کی بیٹی جو کہ ان کی طرح ہی جارحانہ سیاست کر رہی تھیں اور کرنا چاہتی تھیں، کو درپیش تھے نون لیگ کیلئے امید کی ایک کرن تھی کہ بیگم کلثوم صحت مند ہو کر پاکستان واپس آکر وہی اپنا پرانا رول جو انہوں نے اکتوبر 1999ء سے لے کر دسمبر 2000ء تک ادا کیا تھا اداکریں گی مگر اللہ سبحان وتعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں جو اٹل ہیں اور ان کی اپنی ٹائمنگ ہے۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے حسین اور حسن اپنی والدہ کی میت کے ساتھ واپس نہیں آرہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انہیں احتساب عدالت نے اس کے سامنے پیش نہ ہونے کی وجہ سے مفرور قرار دیا ہوا ہے اور یقیناً جونہی وہ پاکستان آئیں گے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ ایسے ماحول میں شریف فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ حسین اور حسن لندن میں ہی رہیں۔ ان کے پاس ویسے بھی دہری شہریت ہے اور وہ برطانیہ کے بھی نیشنل ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)