• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ میچوں میں فتح و شکست کا زیادہ تر دارومدار کپتان کی قائدانہ صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ میچ سے قبل وہ پچ ، وکٹوں، مخالف ٹیم کی حکمت عملی ،اس کے کھلاڑیوںکی کارکردگی اور موسم کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کھیل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ ایک اچھا کپتان ہر میچ سے پہلےجنگی بنیادوں پر گیم پلان تیار کرتا ہے۔’’ شاہین‘‘، ’’گرین شرٹس‘‘ اور ’’مین ان گرین‘‘ کے القابات سے معروف پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی صرف جیت کی لگن کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔ کپتان کرکٹرز کو ذہنی طور پر جیت کے لیے تیار کرکےٹیم کو میدان میں اتارتا ہے۔ 

یوں تو ٹیم کے ساتھ نصف درجن سے زائدمیچ آفیشلز ہوتے ہیں لیکن وہ انکلوژر میں بیٹھ کر کھیل کی نگرانی کرتے ہیں، جب کہ میدان میں ٹیم کو’’ لڑانے‘‘ کی ذمہ داری کپتان پر عائد ہوتی ہے،جو ایک اچھے یا برے ’’سپہ سالار‘‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اچھا کپتان موقع محل کی مناسبت سے فاسٹ اور اسپن بالرز کا استعمال کرتا ہے، بلے بازوں کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں کھیلنے کی ہدایات دیتا ہے۔ اچھی قائدانہ صلاحیتوں کا حامل کپتان، ٹیم کو فتح سے ہم کنار کراتا ہے جب کہ ناقص کپتانی ٹیم کی شکست کا باعث بنتی ہے۔ عبدالحفیظ کاردار، مشتاق محمد، جاوید میاں داد، عمران خان، ظہیر عباس، وسیم اکرم، وقار یونس، سلیم ملک، انضمام الحق، مصباح الحق اور سرفراز احمد کا شمارپاکستان کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب کپتانوں میں ہوتا ہے،جب کہ انتخاب عالم ، سعید احمد، وسیم باری، آصف اقبال ، محمد یوسف ، شعیب ملک اور سلمان بٹ ناکام کپتانوں میں شمار کی جاتے ہیں، جن کی قیادت میںفتح کی بہ نسبت شکست کی شرح زیادہ ہے۔ ذیل میں چند کام یاب اور ناکام کپتانوںکا تذکرہ نذر قارئین ہے۔

عبدالحفیظ کاردار

عبدالحفیظ کاردار کا شمارکامیاب ترین کپتانوں میں کیا جاتا ہے، جن کی قیادت میں کرکٹ کی نوزائیدہ ٹیم نے دنیا کی تجربہ کار ٹیموں کا مقابلہ کرکے کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ قیام پاکستان سے قبل بھارت کی کرکٹ ٹیم میں دو کھلاڑیوں عامر الہٰی اور گل محمد کے ساتھ شامل تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعدکاردار نے قومی ٹیم تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے پہلے کپتان مقرر ہوئے۔ بہ حیثیت کپتان کاردار نے نئے کھلاڑیوں کی تلاش شروع کی اور کلب کرکٹ سے باصلاحیت کرکٹرز کا انتخاب کرکے انہیں ٹیم اسکواڈ میں شامل کیا ، اس لیے انہیں پاکستان کا ’’بابائے کرکٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔کاردار کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے دنیا کے ہر ملک(سوائے بنگلہ دیش) کےخلاف ٹیسٹ میچز کھیلے اور زیادہ تر میچوں میں فتوحات حاصل کیں۔1952ء میں قومی ٹیم نے ان کی قیادت میںپہلا، دورہ بھارت کا کیا اور پہلی بین الاقوامی ٹیسٹ سیریز کھیلی۔ پاکستانی ٹیم زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی، اس دور میں اسے ’’بے بی کرکٹ‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا جب کہ بھارتی کرکٹ ٹیم میں لالہ امر ناتھ ، وینود منکڈ اور محمود حسین جیسے تجربہ کار کھلاڑی شامل تھے جنہیں انگلینڈ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا وسیع تجربہ تھا۔ کاردار کی فہم و فراست کی وجہ سے قومی ٹیم نے بھارت کا بلند حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا اور پانچ میچوں کی سیریز میں ایک میچ میں فتح حاصل کی، دو میچ ہارے، جب کہ دو بغیر کسی نتیجے کے اختتام کو پہنچے۔ 

عبدالحفیظ کاردار نے 23ٹیسٹ میچوں میں پاکستان ٹیم کی قیادت کی ، جن میں سے 6میچ جیتے، اتنے ہی میں شکست ہوئی، جب کہ 11میچ برابر رہے۔ 1954ء میں بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا ، جس کے دوران پانچ ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلی گئی لیکن مذکورہ سیریز کےپانچوں میچ بغیر ہار جیت کے اختتام کو پہنچے، جو کہ کرکٹ کی تاریخ کا ایک منفردریکارڈ تھا۔1952ء میں جب کاردار نے قومی ٹیم کی قیادت سنبھالی تو ناتجربہ کار کرکٹرز پر مشتمل ،پاکستان کی اولین ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی ان کے لیےکسی چیلنج سے کم نہ تھی لیکن وہ اس چیلنج پر پورا اترے اور اسے دنیا کی بہترین ٹیموں کی صف میں کھڑا کردیا۔ جب 1954میںبھارت کے ساتھ ہوم سیریز میں تمام میچ ڈرا ہوئے تو انہیں دفاعی حکمت عملی اپنانے پر ذرائع ابلاغ کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن1957ءمیں آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی جیت نے نہ صرف نقادوں کے منہ بند کردیئے بلکہ قومی ٹیم کو فتوحات کی جانب گامزن کردیا ۔ قومی ٹیم نے آسٹریلیا کو نو وکٹوں سے شکست دی، انہیں پاکستان کرکٹ کی رینکنگ میں ملک کا بہترین کپتان قراردیا گیا تھا۔

عمران خان

وزیر اعظم پاکستان، عمران خان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کے بہترین کپتانوں میں کیا جاتا ہے، جنہوں نےزیادہ تر میچز میں فتوحات حاصل کیں۔ ان کی قیادت تین ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلی مرتبہ 1982۔84میں ٹیم کی قیادت سونپی گئی، دوسری بار1986۔87کے دوران کپتان بنایا گیا،جب کہ تیسری مرتبہ 1988سے 1992تک ٹیم کی قیادت کی۔ان کی کپتانی کا انداز حاکمانہ تھا اور وہ میچوں کے دوران کھلاڑیوں سےنظم و ضبط کی پابندی کرواتے تھے۔وہ ہر ٹیسٹ سیریز سے قبل مخالف ٹیم پر اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بتا کر اس پر نفسیاتی ہیبت طاری کردیتے تھے۔1982ء میں انہوں نے پاکستانی ٹیم کے انگلینڈ کے دورے سے قبل مشہور کیا کہ اسپن بالر، عبدالقادر درحقیقت جادوگر ہیں اور وہ اپنی جادوئی گیندوں کے ذریعے کمالات دکھاتے ہیں، میچ کے دوران برطانوی بلے باز ان سے خائف رہتے تھے۔غمران خان کی قیادت میں قومی ٹیم نے بھارت اور برطانیہ کو ان ہی کی سرزمین پر شکست سے دوچار کیا ۔1983میں پاکستان ٹیم نے آسٹریلیا اور بھارت کو وائٹ واش شکست دی۔ 1992میں پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو شکست دےکرپاکستان کرکٹ کی تاریخ کا’’ واحد‘‘ عالمی کپ جیتا۔عمران خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 48میچوں میں سے14میں فتح حاصل کی ، 26 میچ برابر رہے جب کہ 8میں شکست ہوئی۔انہوں نے قومی ٹیم میں تین فاسٹ بالرزوقار یونس،سلیم جعفراور عاقب جاوید کو متعارف کرایا۔

مشتاق محمد

مشتاق محمد کا شمار بھی پاکستان کے کام یاب کپتانوں میں کیا جاتا ہے، جن کی قیادت میں پاکستان ٹیم کی فتوحات کا تناسب شکست کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ 1959ء میں قومی ٹیم میں شامل ہونے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر تھے۔ 1976ء میںمشتاق نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی،انہوں نے مجموعی طور پر 19 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی، جس میں 8 ٹیسٹ میچوں میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی، 4 میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ، جب کہ 5 ٹیسٹ میچ، ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔1976ء میں ٹیم کی قیادت سنبھالتےہی انہوں نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ہوم سیریز میںدو صفر سے شکست دی۔1976ء اور 1978ء میں آسٹریلیا کے ساتھ، اسی کی سرزمین پرتین میچوں کی سیریز برابر رہی ، جب کہ 1978ء میں بھارت اور نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ٹیسٹ سیریز میں فتوحات حاصل کیں۔ ان کی کپتانی میں پاکستان نے صرف ویسٹ انڈیز کی ٹیم سے سیریزمیں شکست کھائی۔ مشتاق محمد اپنے کھلاڑیوں کو میچ کے دوران جارحانہ انداز اپنانے کی ترغیب دیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ دو مرتبہ تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ 

1976 میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں انہوں نے اپنے بالرز کو باؤنس گیندیں کرانے کی ہدایت کی۔1978ءمیں بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے آخری میچ میں پاکستان نے مہمان ٹیم کو 40 اوورز میں 205 رنز کا ہدف دیا۔ مشتاق محمد نےمیچ جیتنےکے لیے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے اس موقع پر عمران خان اور سرفراز نوازکی صورت میںاپنے فاسٹ بالنگ اٹیک کو استعمال کیا، جس نے مخالف بلے بازوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا۔ سرفراز نے 78 رنز پر بیٹنگ کرنے والے انشومان گائیکواڈ کو گیند کرائی۔یہ شارٹ گیند تھی اور گائیکواڈ کے سر کے کافی اوپر سے گزرتے ہوئے سیدھی وسیم باری کے دستانوں میں محفوظ ہو گئی۔ تمام نگاہیں پاکستانی امپائرز، جاوید اختر اور خضر حیات پر مرکوز تھیں جو اپنی جگہ پر ساکت کھڑے تھے۔سرفراز نے اگلی تین گیندیں اسی طرح باؤنس کرائیں، جس سے بھارتی بلے باز ہراساں نظر آرہے تھے۔ بھارتی ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی نے پہلے اس کی شکایت ایمپائر اور پاکستانی کپتان سے کی لیکن جب کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو وہ ڈریسنگ روم سے اٹھ کرگراؤنڈ میں آگئے اور شدید غصے کے عالم میںاپنے بلے بازوں کوپویلین واپس بلا لیا۔یہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ایک روزہ انٹرنیشنل میچ تھا، جس میں کسی ٹیم نےتیز گیندوںسے خوف زدہ ہوکر شکست تسلیم کرلی اورجیت فیلڈنگ کرنے والی ٹیم کے نام ہوگئی ۔1979ء میںمشتاق کو ٹیم کی قیادت سے سبک دو ش کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی سبک دوشی کے پیچھے نائب کپتان آصف اقبال کی سیاست کارفرما تھی۔

جاوید میاں داد

جاوید میاں داد1980۔82، 1984۔86و1987،1988،1990 ور 1992۔93میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ ان کو قومی ٹیم کی ریٹنگ میں ٹیم کا بہتر قائد قرار دیا گیا ہےجن کی قیادت میں ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی فتوحات کا تناسب شکست کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے، جب کہ ایک روزہ میچوں کے نتائج اس کے برعکس ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے 34ٹیسٹ میچز کھیلے، جن میں سے 14میچ جیتے، 14برابر رہے، جب کہ صرف چھ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1990ء میں ان کی قیادت میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو وائٹ واش شکست دی ۔ 1992ء میں برطانیہ کے خلاف اسی کی سرزمین پر دو میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کیا۔ جاوید میاں داد نے سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم اور معروف لیگ اسپنر توصیف احمد کو قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ کھیل کے میدان میں ان کا انداز انتہائی جنگجویانہ ہوتا تھا۔وہ بالرز کو تیز گیندوں اور باؤنسرز پھینک کر حریف بلے بازوں کو ہراساں کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ متعدد مرتبہ وہ تنازعات کاشکاربھی رہے۔ 1981ء میں آسٹریلیا میں ایک میچ کے دوران ڈینس للی کے ساتھ ان کا تصادم ہوا ۔اسی سیریز کے دوران ان کی ماجدخان کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، اس کے بعدانہوں نے ماجد خان سے بول چال بندکردی، یہاں تک کہ جب وہ ایک ساتھ بیٹنگ کررہے ہوتے تھے، تب بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ان کے کئی ساتھی کرکٹرز ان کی قیادت سے خوش نہیں تھے۔ 1982 اور 1993میں انہیں کھلاڑیوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔

وسیم اکرم

سوئنگ کے سلطان، وسیم اکرم کا شمار بھی کامیاب کپتان میں ہوتا ہے۔ ان کی قیادت کا عرصہ تین ادوار پر محیط ہے۔ پہلی مرتبہ انہیں 1993۔94میں ٹیم کی قیادت سونپی گئی۔ دوسری بار 1995۔96میں،جب کہ تیسری مرتبہ 1997سے 1999تک ٹیم کے کپتان رہے۔ ان کی کپتانی میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 25ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 12میچ جیتے، 8ہارے اور 5برابر رہے۔ 109ایک روزہ میچوں میں سے 66میچز جیتے، جب کہ 41میچوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 1996میں انہوں نے انگلینڈ کو اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار کیا۔ان کی قیادت کے ادوار تنازعات کا شکار رہے، 1996کے عالمی کپ کے کوارٹر فائنل سے قبل، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیاتھا، انہیں ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ 1999ء میں ان کی قیادت کے خلاف ساتھی کھلاڑیوں نے بغاوت کردی۔ فاسٹ بالر وقار یونس اور جاویدمیاں داد کے ساتھ ان کے تعلقات زیادہ تر کشیدہ رہتے تھے۔ بہرحال ان کا شمار کام یاب کپتانوں میں ہوتا ہے۔

وقار یونس

وقار یونس کو بھی قومی ریٹنگ میں اچھا کپتان قرار دیا گیا ہے، ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے 17ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 10میں فتح حاصل کی، جب کہ 7میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 62ایک روزہ میچوں میں 37جیتے، 23ہارے۔ ان کی قیادت کا انداز ان کی بالنگ کی طرح انتہائی جارحانہ تھا۔ 2001ء میں خراب موسمی صورت حال کے باوجود انہوں نے میزبان ٹیم کے ساتھ سیریز برابر کی۔ 2003ء کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کے ساتھ میچ کے موقع پر ایمپائر نے انہیں سر سے اونچی بیمر بال کرانے پرسرزنش کی ۔ عالمی کپ میں پاکستان کی شکست کے بعد انہوں نے پوسٹ میچ تقریبات میں شرکت کرنےسے انکار کردیا تھا۔

ظہیر عباس

ایشین بریڈ مین، ظہیر عباس، ملک کے ریکارڈ ساز کھلاڑی ہیں جن کے بیٹنگ اسٹائل کی زیادہ تر بلے باز نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔1983۔84کے دوران ایک سال تک وہ قومی ٹیم کے کپتان رہے ہیں،جنہیں پاکستانی کپتانوں کی ریٹنگ میںاوسط درجے کا کپتان قرار دیا گیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 14 ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیا جن میں سے 3جیتے، ایک ہارا ، 10ڈرا ہوئے۔ 13ایک روزہ میچوں میں سے گرین شرٹس نے سات میچوں میں کامیابی حاصل کی، 5میں شکست اورایک برابر رہا۔1984ء میں ظہیر عباس نے نیوزی لینڈ کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر سیریز میں کلین سوئپ کیا۔ اسی سال نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔میچوں کے دور ان کیوی ٹیم کے کپتان جرمی کونی، ایمپائروں کے جانب دارانہ فیصلوں سے شاکی دکھائی دیتے تھے، جب کہ ظہیر عباس مطمئن نظر آئے۔ ایک میچ میں ’’کونی‘‘ کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ پاکستانی کپتان پر برس پڑے۔ انہوں نےگراؤنڈ میں ہی چلاتے ہوئے کہاکہ ظہیر عباس متنازع اور متعصبانہ ایمپائرنگ کی حمایت کررہے ہیں۔دیگر کپتانوں کی طرح ظہیر عباس کو بھی ساتھی کھلاڑیوں کی مخالفت کا سامنا رہا۔1985ء میںقومی ٹیم کے نیوزی لینڈکے دورے سے قبل انہوں نے کپتانی سے استعفیٰـ دے دیا۔ جب انہیں اس دورے کے لیے دوبارہ نائب کپتان کے طور پر شامل کیا گیا تو کئی کھلاڑی اس پر ناخوش تھے۔ دورے کے دوران لیگ اسپنر،عبدالقادر نے ان کی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے ظہیرعباس نے انہیں ٹیم اسکواڈ سے باہر کروا کر گھر واپس بھیج دیا۔

انضمام الحق

انضمام الحق کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کام یاب کپتان کہا جاتا ہے۔ان کا شمار دنیا کے بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے۔وہ ٹیسٹ کرکٹ میں جاوید میانداد کے بعد پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے اور ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے سب سےپہلے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی ہیں۔وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے23ویں کپتان تھےاور ان کا شمار پاکستان کے بہتر کپتانوں میں کیا جاتا ہے جن کی قیادت میں قومی ٹیم نے31ٹیسٹ میچوں میں سے 11میں کامیابی حاصل کی تھی اور اتنے ہی ہارے جب کہ 9برابر رہے۔ ایک روزہ میچوں میںہار جیت کا تناسب بہتر نظر آتا ہے۔ پاکستان نے 87میں سے 51میچوں میں فتح حاصل کی ،33ہارے ۔ ان کی قیادت میں ٹیم نے صرف ایک ٹی۔20میچ کھیلا، جس میںکامیابی حاصل کی۔یومی ٹیم کی ذہنی تربیت بھی وہ اسلامی انداز میں کرتے تھے جس کی وجہ سے کئی کھلاڑی ان سے نالاں تھے۔

مصباح الحق

مصباح الحق کا شمار قومی ٹیم کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 2011 سے 2016تک قومی ٹیم کی قیادت کی ،جس کے دوران ٹیم نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ 2012ء میں ایشیاکپ جیتا۔انہیں جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر سیریز میں شکست دینے والاپہلا ایشین کپتان قرار دیا گیا۔ ان کی کپتانی کا انداز زیادہ تر دفاعی ہوتا تھا۔ میچ کے دوران وہ حریف کھلاڑیوں کو رنز بنانے سے روکنے اور زیادہ سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کے لیے فیلڈنگ کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ ان کی حکمت عملی ٹیم کی کامیابیوں میں معاون ثابت ہوتی تھی۔ ان کی کپتانی کا دور تنازعات سے پاک رہا۔ مصباح کی قیادت میں قومی ٹیم نے 52ٹیسٹ میچز میں سے 24میں فتح حاصل کی ، 11ہارے، جب کہ اتنے ہی ڈرا ہوئے۔ 87ایک روزہ میچوں میں سے 45میں کامیابی حاصل کی، 39میں شکست ہوئی۔ 

ٹی۔20فارمیٹ میں ان کا ریکارڈ انتہائی شاندار رہا۔ 8ٹی ۔20میچوں میں سے 6جیتے جب کہ صرف دو میچ ہارے۔ 2015میںآسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش شکست دی ،جب کہ 2016میںانگلینڈ کو اسی کی سرزمین پر1۔2 سے شکست دے کر سیریز میں فتح حاصل کی۔ان کا آخری کارنامہ ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر سیریز جیتناہے۔ ان کی کپتانی کے دور میں 2016میں قومی ٹیم، ٹیسٹ رینکنگ کی عالمی درجہ بندی میںپہلی پوزیشن پر فائز تھی۔انہوں نے قومی ٹیم میں دو اسپنرز یاسر شاہ اور سعید اجمل کو متعارف کرایا ۔اپنے عروج کے دور میں انہوں نے نہ صرف کپتانی بلکہ کرکٹ سےبھی ریٹائرمنٹ لے لی۔

سرفراز احمد

پاکستان ٹیم کے 32ویں کپتان، سرفراز احمد اس وقت کرکٹ کے تینوں فارمیٹس کی قیادت کررہے ہیں، ان کا شمار محدود اوورز کرکٹ کے کامیاب ترین قائدین میں کیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے بے شمار فتوحات سمیٹیں اور ٹی۔20کرکٹ میں ناقابل تسخیرثابت ہوئی ہے۔2006یں سرفراز نے فرسٹ کلاس کیرئیر کی ابتدا کی اور کچھ عرصے بعد ہی انہیں انڈر۔19ٹیم کا کپتان بنادیا گیا، اسی سال پاکستان نے انڈر ۔19کا عالمی کپ جیتا۔2016میں انہیں شاہد آفریدی کی جگہ ٹی۔20ٹیم کا کپتان بنایا گیا اور ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے پہلے ہی میچ میں انگلینڈ کو 9وکٹوں سے شکست دی۔ اسی سال پاکستان کا مقابلہ مختصرفارمیٹ کی کرکٹ میچوں میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہواجو آئی سی سی ٹونٹی کی عالمی چیمپئن تھی۔ قومی ٹیم نے اسے 3میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کیا۔ سرفراز کی قیادت میں قومی ٹیم ٹی۔ٹونٹی فارمیٹ میں ناقابل تسخیررہی اور ہر میچ میں فتح حاصل کی۔ حال ہی میں انہوں نے اسکاٹ لینڈ اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیموں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ 2017میں انہیں اظہر علی کی جگہ ایک روزہ ٹیم اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان بن گئے۔ 

قومی ٹیم نے ان کی قیادت میںبھارت کو شکست دے کر 2017میں پہلی مرتبہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتی۔ٹیسٹ میچوں میں ان کی کامیابی کا تناسب نسبتاً کم ہے۔ پانچ میچوںمیں سے انہوں نے 2میچ جیتے، جب کہ تین میں شکست کا سامنا رہا، جن میں سری لنکا اور آئرلینڈ سے وائٹ واش شکست بھی شامل ہے۔ رواں سال قومی ٹیم انگلینڈ اور آئرلینڈ کے دورے پر گئی۔اس دورے کے دوران، سرفراز، تاریخی کرکٹ گراؤنڈ لارڈز میں ٹیسٹ میچ جیتنے والے پانچویں پاکستانی کپتان بن گئےجب کہ پاکستانی ٹیم کو ان کی قیادت میںلگا تار آٹھ ٹی 20 میچوں کی سیریز جیتنے کا اعزازبھی حاصل ہوا۔رواں سال جب کئی کرکٹرزکو میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کاسامنا تھا، پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد بھی خبروں کا مرکز بنے رہے۔

قومی ٹیم کےناکام کپتان

کامیاب کپتانوں کی طرح ٹیم کی قیادت ایسے قائدین کے بھی پاس رہی ، جو ناقص منصوبہ بندیوں، متنازعہ پالیسیوں اور کھیل میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو فروغ دے کرقومی ٹیم کو زوال سےدوچار کرنے کا سبب بنے، ذیل میں ان کے بارے میں بھی ملاحظہ کریں۔

سعید احمد

سعید احمد کا شمارناقص کپتانوں کی ریٹنگ میں اول درجے پر آتا ہے۔ان کی قیادت میں قومی ٹیم زوال کا شکار رہی۔ 1968ء میں انہیں حنیف محمد کی جگہ قومی ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ ان کے بارے میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ حنیف محمد کو کپتانی سے ہٹوانے میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ 

ساتھی کرکٹرز میں وہ خود غرض اور متعصب کپتان کے طور پر معروف تھے، جب کہ ان کے طرز عمل کی وجہ سے کرکٹ کے شائقین بھی انہیں ناپسند کرتے تھے۔ ٹیم کی قیادت سنبھالنے کے بعد پہلے ہی ٹیسٹ میچ کے دوران ان کا سلیکٹرز کے ساتھ جھگڑا ہوا۔ ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے صرف انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی، جو ڈرا ہوئی۔

جاوید برکی

جاوید برکی قومی ٹیم کے ایسے کپتان تھے جنہوں نے کھیل سے زیادہ ٹیم میں گروپ بندی اور گروہی سیاست کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز رکھی۔انہوں نے1960میں بھارت کے خلاف کھیلتےہوئے ٹیسٹ ڈبیو کیا اور حیرت انگیز طور پرچند ہی ماہ بعد انہیں 1961میں قومی ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی۔ان کی کپتانی میں پاکستان نے 1962ء میں انگلینڈ کے خلاف صرف ایک ٹیسٹ سیریز کھیلی جس کے 5ٹیسٹ میچوں میں سے 4میچوں میں شکست جب کہ ایک میچ برابر رہا۔ انگلینڈ کے دورے کے دوران ان کا ٹیم کے سینئرکھلاڑیوں سے جھگڑا ہوگیا، جس کے بعد انہوں نے ٹیم کے بعض کرکٹرز کو ساتھ ملا کر باقاعدہ ایک گروپ بنا لیا ،جوسینئر کھلاڑیوںکی مخبری اوران کےلیے پیغام رسانی کا کرتے تھے۔

ان کے علاوہ ماجد خان، امتیاز احمد ، وسیم باری ،آصف اقبال، سعید انور، عامر سہیل ، محمد یوسف ، سلمان بٹ کو ، ان کی انفرادی کارکردگی سے قطع نظر ، ٹیم کے ناکام قائدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین