• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کم و بیش تیس لاکھ یتیم، بے سہارا اور بے گھر بچے اور بچیاں والدین کی مامتا اور شفقت سے محروم ہیں اور دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان بیت المال کے سربراہ زمرد خان نے ”سویٹ ہومز“ سکیم کے تحت 28سویٹ ہومز میں چار ہزار ایسے بچوں کو عافیت اور دیکھ بھال فراہم کی ہے لیکن اپنے ملک اور معاشرے کے زمینی حقائق اور معروضی حالات کوپیش نظر رکھا جائے تو مذکورہ بالا خوشی کچھ زیادہ فاصلہ طے کرتی دکھائی نہیں دیتی ۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ زمرد خاں زندگی بھر پاکستان بیت المال کے سربراہ رہیں اور ان کی جگہ جو صاحب یا صاحبہ بھی یہ عہدہ سنبھالیں وہ بھی ایسے ہی خیالات اور جذبات رکھتی ہوں۔ اپنی قومی روایت تو کچھ ایسی ہے کہ جو کوئی بھی آتا ہے وہ اپنی خواہش اور مرضی کی نئی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی ایک عمارت بھی مکمل نہیں ہوسکی اور اگر مکمل ہوسکی ہے تو برقرار نہیں رہ سکی۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ نئے آنے والے عمارت کی تختی پر کسی کا نام مٹا کر اپنا نام لکھ دیں اور عمارت کو گرانے اور نئے سرے سے بنانے کی کوشش نہ کریں۔ اسی عمارت کی وسعت اور پائیداری میں اضافہ کریں۔
وطن عزیز کی کسی ایک عہد کی حکومت کا طریق کارکسی دوسری حکومت کے طریق کار سے نہیں ملتا۔ ایک ہی پارٹی کے دو حکمرانوں کی حاکمیت کے اندازوں میں واضح فرق ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران جس انداز سے جمہوریت کو چلانے کی کوشش کی گئی۔ آنے والے پانچ سالوں میں اسی جمہوریت کو چلانے کے لئے صدر آصف علی زرداری سے قطعی مختلف بلکہ متضاد حکمت عملی اختیار کی جاسکتی ہے۔ جیسے میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ اگر عام انتخابات کے نتیجے میں ہماری حکومت قائم ہوئی تو پہلے دن سے ہی پتہ چل جائے گا کہ ملک میں انقلاب آگیا ہے۔ کوشش ہونی چاہئے کہ اس نوعیت کے انقلابات کی زد میں بے گناہ شہری اور معصوم بچے نہ آئیں اور اگر کسی حکومت نے غلطی سے کوئی اچھا کام کر دیا ہے تو اسے ختم کرنے کی بجائے آگے بڑھانے پر توجہ دی جائے۔
ان کالموں میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی تعریف کی گئی تھی کہ انہوں نے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے عہد حکومت کی ایک اچھی فلاحی سکیم ”1122“ کو ختم کرنے کی بجائے اپنانے اور جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ میاں صاحب دانش گاہوں جیسے ہاتھی پالنے کی بجائے چودھری صاحب کی ”پڑھا لکھا پنجاب“ کی سکیم کو ہی آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آدھے سے زیادہ لاہور شہر کی اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے لاہورکے ”رنگ روڈ“پر ”سرکلر ریلوے“ کے منصوبے کو تازہ کرتے اور معاملہ پیچھے جانے کی بجائے آگے بڑھتا دکھائی دیتا۔
کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ عام لوگوں کے بہترین مفاد میں تمام سیاسی جماعتیں مل کر تعلیم، صحت، امن و امان، ضروریات زندگی کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے کچھ ”ماسٹر پلان“ تیار کریں اور فیصلہ کیا جائے کہ جو بھی حکمران ہوگا اور جو پارٹی بھی اقتدار حاصل کرے گی وہ اس ”ماسٹر پلان“ سے روگردانی نہیں کرے گی بلکہ اس پر عمل درآمد اور اس کی تکمیل کی پابند ہوگی اور یوں پاکستان بیت المال کے سویٹ ہومز ملک کے تمام تیس لاکھ یتیم بے آسرا اور بے گھر بچوں تک پہنچ جائیں گے اور ”1122“کا منصوبہ ملک کے تمام علاقوں اور ضلعوں تک رسائی حاصل کرے گا۔ ملک کے تمام بڑے شہروں کی رنگ روڈز پر سرکلر ریلوے کی گاڑیاں بھی چل رہی ہونگی۔
تازہ ترین