رونق حیات
پانی یہ کہہ رہا ہے، علمدار کے لیے
اک فتحِ جاوداں ہے، وفادار کے لیے
دیکھو کہ جاں لٹا کے گھرانہ رسولؐ کا
لایا ہے صبح، رات کے آثار کے لیے
ہر دن، وغا کا دن ہے، سرِ مقتلِ وفا
ہر شب، شبِ عزا ہے، عزادار کے لیے
یہ بے گھروں پہ خاک اڑاتی ہوئی ہوا
ماتم کناں ہے، ہر در و دیوار کے لیے
سوچو تو دل پہ ٹوٹنے لگتا ہے، کوہِ غم
کیا سختیاں تھیں، عابدِؓ بیمار کے لیے
اے ارضِ کربلا، مری آنکھوں کے یہ چراغ
بجھ بجھ کے جل اٹھے، ترے دیدار کے لیے
دستِ صبا سے کہیو کہ لائے دمشق سے
زینبؓ کی خاکِ پا، مری دستار کے لیے
میں عزتِ رسولؐ کی، سیرت کی روشنی
لے کر چلا ہوں، دشتِ شبِ تار کے لیے
آئے اگر نجف سے، مہکتی ہوئی ہوا
بھیجوں سلام، حیدرِؓ کرار کے لیے
رونق، خطابِ زینبِؓ کبریٰ، خدا گواہ
تھا ضربِ حق، یزید کے دربار کے لیے
کوثر نقوی
صرف تیری داستاں میں، بات یہ پائی، حسینؓ
تازگی بڑھتی گئی، یہ جتنی دُہرائی، حسینؓ
تیرے ہی در پر، جبیں سائی فرشتوں نے بھی کی
تیرے ہی در پر کریں گے ہم جبیں سائی، حسینؓ
صرف دھڑکن کے سبب، میں دل کو دل، کہتا نہ تھا
دل کو دل کہنے لگا، جب تیری یاد آئی، حسینؓ
یا علیؓ ہیں یا حسنؓ یا تُوؓ نبیؐ کے دوش پر
تاحدِ امکان آخر، ہے یہ اُونچائی، حسینؓ
سن کے اکبرؓ کی اذاں، اُس نے حقیقت دیکھ لی
اس اذاں نے بخشی دی ہے، حُر کو بینائی، حسینؓ
نوکِ نیزہ پر تلاوت، عقل کیوں حیراں نہ ہو
حلق کٹ کر بھی ہے باقی، روزِ گویائی، حسینؓ
جیسے جیسے، تشنگی کی ہوتی ہے مدت طویل
بڑھتی جاتی ہے، ترے پھولوں کی رعنائی، حسینؓ
روزِ محشر اس کی بخشش کا وسیلہ بن گئی
تیری ہی اُلفت، وہاں کوثر کے کام آئی، حسینؓ
صفدر صدیق رضی
حسینؓ، آپ کا کردار یاد آتا ہے
کبھی کبھی نہیں، سو بار یاد آتا ہے
زمین پر کوئی بے وجہ قتل ہو کہ شہید
حسینؓ، آپ کا ایثار یاد آتا ہے
میں جب بھی اپنی شفا کی، دعائیں کرتا ہوں
ہمیشہ عابدِؓ بیمار، یاد آتا ہے
کبھی کبھی جو میں اپنے دکھوں پہ روتا ہوں
مجھے اک ایک عزادار، یاد آتا ہے
وہ شیر خوار کا سینہ، وہ تابکار کا تیر
مجھے شہید کا معیار، یاد آتا ہے
اٹا ہوا ہوں بہت گردِ مصلحت سے رضی
حسینؓ، آپ کا انکار یاد آتا ہے