مولانا سیدحسن ظفر نقوی
جناب عبداللہ ابن عباس ؓ ، جناب جابر ابن عبداللہ انصاری ؓ، اُمّ المومنین جناب اُمّ سلمہ ؓ اور جناب اُمّ ایمنؓ یہ اُن درجنوں عظیم ہستیوں میں سے معروف ترین اور معتبر ترین ہستیاں ہیں کہ جن کی زبانی واقعاتِ کربلا نقل حدیث رسولؐ کی صورت میں عامتہ الناس تک پہنچتے رہے ۔ اُس وقت جبکہ ابھی واقعۂ کربلا رونما بھی نہیں ہوا تھا ۔ خاص طور پر اُمّ المومنین اُمّ سلمہ ؓ سے منقول وہ روایت جس میں آپ نے فرمایا کہ آقائے دوجہاںﷺنے کربلا میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر مجھ سے کیا اور خود بھی گریہ فرمایا اور میں بھی گریہ کرتی رہی۔ اُس کے بعد آنحضرت ﷺنے مجھے ایک شیشی عنایت فرمائی ،جس میں کچھ خاک تھی ۔ اور مجھ سے فرمایا کہ جس روز یہ خاک سرخ ہوجائے سمجھ لینا کہ میرا حسین ؓ شہید کردیا گیا اور ایسا ہی ہوا ۔ کیوںکہ عاشورا 61ہجری میں اُمّ المومنین ؓحیات تھیں اور مدینے میں موجود تھیں جب کربلا میں یہ سانحہ رونما ہوا ۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ جب مدینے کے اکثر صحابہ کرام ؓ اور تمام امہات المومنین ؓاور اہل بیت عظامؓ کو سانحہ کربلا کا علم تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ثانی زہرا حضرت زینب ؓکے علم میں یہ بات نہ ہو، اگرچہ آپ کمسن ہی سہی، لیکن گاہے گاہے واقعات کربلا کی گونج سنتی تھیں۔ اس ضمن میں ہم اپنے قارئین کی توجہ کچھ روایات کی طرف دلانا چاہتے ہیں ۔ جب ثانی زہرا حضرت زینب ؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو یہ خبر حضرت سلمان فارسی ؓ نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو پہنچائی ،جبکہ امیر المومنین مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ۔آپ نے جب یہ خبر سنی تو آپ آبدیدہ ہوگئے۔ مسجد میں موجود حضرات نے جب سبب گریہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے وہ مصائب یاد آگئے جو میری اِسی بیٹی پر آئندہ زمانے میں پڑنے والے ہیں ۔
حضرت بی بی زینب ؓنے اُسی آغوش میں پرورش پائی جس آغوش میں جوانانِ جنت کے سردار پروان چڑھ رہے تھے ۔ آپ والدین اور نانا کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں بھائیوں کی بھی چہیتی تھیں، لیکن روایات میں ملتا ہے کہ جناب سید الشہداء امام حسینؓ سے آپ کو خاص لگاؤ تھا ۔ یہاں تک کہ آپ جب گہوارے میں تھیں، اُس زمانے میں بھی جب حسینؓ نزدیک آتے تھے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوجاتی تھی۔ زبان وحی سے واقعات کربلا کا علم ہونے کے سبب مدینے کے بچے بڑے جانتے تھے کہ علیؓ و فاطمہؓ کی اسی بیٹی کا خاص مقام ہے، یہ وہ بچی ہے جو شہادتِ حسینؓ کے بعد مقصدِ شہادتِ حسینؓ کو اپنے خطبات کے ذریعے قیامت تک زندہ رکھے گی اور اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب شریکتہ الحسینؓ قرار پایا ۔
ایک خاتون ہونے کے باوجود آپ نے جس آغوش میں پرورش پائی تھی، اُس مظاہرے کے طور پر آپ عقیلہ بنی ہاشم قرار پائیں۔ عصر عاشور کے بعد آپ کے شانوں پر دو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوگئی تھیں۔ ایک امام زین العابدینؓ ( جو روز عاشور مرض کے غلبے کے سبب زیادہ وقت عالم غشی میں رہے) سمیت آلِ رسول ؐ کے خواتین اور بچوں کی حفاظت اور دوسرا مقصد قیامِ شبیری کو اُجاگر کرنا ۔
آپ تصور کریں کہ ایک ایسی خاتون ساری زندگی کسی نامحرم نے جس کی آواز نہ سنی ہو ۔ سورج کی کرنیں کبھی جس کے بغیر چادر کے سر پر نہ پڑی ہوں۔ اُس بی بی کو اچانک ایک ایسا معرکہ درپیش ہوجس کا سامنا کرنے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے سوائے خدا کے کوئی مددگار نہ ہو ۔ وہ بی بی کیسے اِن حالات کا مقابلہ کرے گی، لیکن علیؓکی بیٹی نے یہ دونوں ذمہ داریاں ایسے نبھائیں کہ تاریخ میں کوئی دوسری خاتون اس میدان میں دور دور تک زینب ِ کبریٰ کی ہمسر نظر نہیں آتی ۔
شامِ غریباں میں جب لشکرنے خیموں کو لوٹ کر آگ لگا دی اور رسول زادیوں کے سروں سے چادریں تک چھین لیں تو اس ہنگامے میں خواتین اور بچے میدا ن میں بکھر گئے تھے اور جناب سید سجادجلتے ہوئے خیموں میں گھرے ہوئے تھے ۔ ثانی زہرا ؓنے سب سے پہلے بیمار کربلا کی حفاظت کی اور اپنے بھتیجے کو جو وقت کے امام بھی ہیں، انہیں جلتے ہوئے خیموں سے اپنی پشت پر لاد کر نکالا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا اور پھر اپنی خواہر اُمّ کلثوم ؓکے ہمراہ کھوئی ہوئی بیبیوں اور بچوں کو تلاش کرکے اُن کے لئے ایک گوشے میں جگہ بنائی اور پھر علیؓ کی یہ شیر دل بیٹی جلے ہوئے خیموں سے ایک نیزہ تلاش کرکے لائی اور رات بھر بیبیوں اور بچوں کی محافظ بن کر پہرا دیتی رہی۔حقیقت یہ ہے کہ اِن مصائب کے لمحات کو جن کا ایک ایک لمحہ گزارنا صدیوں کے برابر تھا ، نہ تو کوئی رقم کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی بیان کرسکتا ہے ۔
ثانی زہراؓ کے سامنے دوسرا اور کہیں بڑا محاذ تھا ،وہ محاذ تھا کوفہ اور شام کے بازار، دربار اور زندان کا مخالفین کے اژدھام میں اور خاص طور پر ابنِ زیاد اور یزید کے درباروں میں آپ کے خطبات ،آپ کے علم و دانش، آپ کے صبر و سکون، آپ کے وقار و متانت کا آئینہ دار ہیں ۔ علیؓ کی بیٹی نے کسی بھی مرحلے پر بے صبری یا خوف کا مظاہرہ نہیں کیا اور یہی سبب تھا کہ زینب کبریٰ ؓکے خطبات کی گونج درباروں اور زندانوں سے نکل کر یزیدیت کے لئے اتنا بڑا خطرہ بن گئی کہ اُسے مجبوری اور خوف کے عالم میں آلِ رسول ؐ کو رہا کرنا پڑا ۔
رہائی کے بعد بھی مدینے واپسی کے بعد آپ مدینے کی خواتین کو جمع کرکے اُن کے سامنے واقعات ِ کربلا تفصیل سے بیان فرماتی تھیں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہئے کہ درحقیقت ذکرِ حسین کی بانی خود حسین ؓ کی بہن زینب ؓہیں ۔ امام حسینؓ ہوں یاآپ کے انصار، ثانی زہراؓ ہوں یا اُن کے ساتھ شریک خواتین اور بچے ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ان ہستیوں کی یہ تمام قربانیاں اسلام اور احکام ِ اسلام کی بقا کے لئے تھیں۔تحریفات سے دین کو بچانے کے لئے تھیں۔ ہمیں کربلا اور کربلا والوں کو فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہوکر اللہ کی راہ میں قربانیاںدینے والوں کی نظر سے دیکھنا چاہئے ۔ اللہ ہم سب کو محمد ؐ و آلِ محمدؓ کے صدقے میں دین کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔