• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر…امیر العظیم
ڈاکٹر حسن صہیب مراد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر انجینئر خرم جاہ مراد کی دلی مراد تھے۔ان کے دادا کا تعلق سرگودھا سے تھا جنہوں نے رسول پور (گجرات ) سے سول انجینئرنگ کرنے کے بعد گوہر گنج بھوپال میں ملازمت اختیار کی۔ خرم مراد بھوپال میں پیدا ہوئے اورپاکستان بننے پر کراچی میں آباد ہوگئے۔ این ای ڈی (NED) سے سول انجینئرنگ کی۔ میرٹ پر وظیفہ لیکر MSامریکہ سے کیا۔ کراچی آکر ایسوسی ایٹیڈ کنسلٹنٹ انجینئرز ACEمیں ملازمت شروع کی اور کمپنی کی طرف سے ڈھاکہ ٹرانسفر ہوئے۔
حسن صہیب مراد کی زندگی جدوجہد، محنت اور کامیابی کی رشک آمیز کہانی ہے۔ وہ22اکتوبر 1959کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ حسن صہیب کی ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں ہی ہوئی۔ لیکن گریجوایشن کراچی (این ای ڈی یونیورسٹی )سے ہوئی۔ چار سالہ انجینئرنگ کے دوران ان کا یہ اعزاز رہا کہ ہر سال ڈین میرٹ ایوارڈ حاصل کیا۔ بعد ازاں واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی سے ایم بی اے اور یونیورسٹی آف ویلز برطانیہ سے پی ایچ ڈی بھی کی۔
حسن صہیب سے میر ا ذاتی تعلق تو 1980کے لگ بھگ قائم ہوا۔ وہ کراچی میں اور میں لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کرتے تھے۔ جمعیت کی شوریٰ، تربیت گاہ اور سالانہ اجتماع میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن 1987کے بعد حسن صہیب اپنے خاندان سمیت لاہور آگئے۔ لاہور میں کچھ عرصہ ایک نجی ادارہ میں ملازمت کی۔ لیکن وہ ملازمت کے آدمی نہ تھے۔ قاضی حسین احمد اور خرم مراد کی سرپرستی میں حسن صہیب، محمد علی درانی، پروفیسر طیب گلزار اور راقم الحروف کا ایک غیررسمی حلقہ بن گیا۔ جس میں جماعت اسلامی، پاسبان کشمیر، افغانستان، وسطی ایشیاء اور امت مسلمہ کے حوالے سے غور وفکر کی مجالس ہوا کرتی تھیں۔ اس دوران ہم چاروں نے مل کر مشترکہ کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی، پھرحسن صہیب نے اعلان کردیا کہ وہ علم کے میدان میں کام کریں گے۔ حسن صہیب کو تین حروف الف، لام، میم سے والہانہ لگائو تھا۔ ان کا خیال تھا کہ قوم کا عروج علم سے مشروط ہے اور علم ہی قیادت سکھاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے 1990میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈمینجمنٹ قائم کیا اور پھر اس انسٹی ٹیوٹ کو عالی شان یونیورسٹی کی شکل دینے کے لئے رات دن وقف کر دیا۔ یہ اللہ رب العزت کا ان پر خاص کرم تھا کہ مختصرعرصہ میں بین الاقوامی سطح کی ایک یونیورسٹی کو تن تنہا کھڑا کردیا۔
ڈاکٹر حسن کو نشیب فراز میں اپنے رب سے غافل نہیں دیکھا۔ ایک دل آویز مسکراہٹ ہر وقت ان کے چہرے پر چھائی ہوتی۔ بے شمار لوگوں کا کیرئیر بنانے میں ان کی ذاتی دلچسپی اور رہنمائی کا دخل رہا۔ یونیورسٹی کے ریکٹر اور چیئرمین بننے کے باوجود انہوں نے اپنی شخصیت کی جاذبیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ وہ ہر طرح کے تکلفات اور رسمی روایت کو چھوڑ کر ہر شخص سے بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملتے۔ طلبہ کے مسائل حل کرنے میں انہوں نے کبھی رعونت اور تکبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ تدبیر کا راستہ نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ حسن صہیب مراد کے سامنے بیٹھے کسی بھی فرد کو یہ احساس ضرور رہتا کہ وہ ایسی علمی شخصیت کے رو برو ہے جو کسی بھی شعبہ علم میں اس کے علم کو غیر محسوس انداز میں نئی جہت دے رہا ہے۔ ان سے بات کرنے والا نئے تصورات کا جہان لے کر رخصت ہوتا اور اسے ہمیشہ یہ خیال دامن گیر رہتا کہ حسن صہیب سے بات کرنے سے پہلے ہر اعتبار سے زیر بحث مسئلے یا علمی نکتے پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ وہ اس خیال سے دور رہتے کہ انہیں کسی نوعیت کی علمی دھاک بٹھانی ہے۔ ان سے ملنے والا علم و کمال کے نئے زاویے دیکھ کر جاتا اور ان کی مزید جستجو میں رہتا۔
ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ممکن ہے کہ آسان ہو، لیکن میری جستجو یہی ہے کہ مجھے نام کے بجائے میرے کام سے پہچانا جائے، میری کوشش ہوتی ہے کہ نئے نئے راستے نکالے جائیں۔ نئے علوم کو روایت، اور جدت کے امتزاج کے ساتھ پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پیچھے رہ کر کام کرنے والے دنیا پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور خود کو پیش کرنے والے خود تنہا ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ان کی ذات پر کس قدر پوری اُترتی ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے علم کو قیادت سے جوڑا، اور قیادت کو عمل کی معراج بنایا اسی لئے آج ہم ان کے قائم کردہ انسٹی ٹیوٹ کو اس سوچ کی عملی تصویر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد اہم قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں بالکل جدید موضوعات پر پرمغز مقالے اور مضامین پڑھتے رہے۔ دنیا بھر کے جرائد علمی میں ان کے ان گنت تحقیقی و علمی مضامین شائع ہوئے۔ ان کی تصنیفات کی تدوین کی جائے تو ان کی کتب کی تعداد حیران کر دیتی ہے۔ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی محدود دنیا کو انہوں نے اپنے کام سے لا محدود کر دیا جن شعبہ جات میں کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا کہ ان میں بھی ڈگری پروگرام ہو سکتے ہیں، ان کو شروع کیا ۔ ان پروگراموں کو بین الاقوامی سطح کی جامعات نے بھی تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پروگراموں سے ابتدائی کورسز اور سمسٹرز پورے کرنے والوں کو برطانیہ و امریکہ کی جامعات میں داخلے ملے تعلیمی بے مائیگی دو رکرنے میں حسن صہیب مراد کا یہ کار نامہ زندہ رہے گا۔ ان کی پیروی دوسرے ادارے بھی اب کر رہے ہیں۔
میں کچھ عرصہ سے انہیں ہر ملاقات میں عرض کرتا تھا کہ اب ذرا دم لیکر کام کریں۔ بہت زیادہ بوجھ مت اٹھائیں۔ ہر وقت یونیورسٹی کو وسیع تر کرنے کی فکر سے کچھ آزاد ہوں لیکن ڈاکٹر صہیب میر ی بات سے اتفاق کے باوجود ’’نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو‘‘ اپنا کام جاری رکھے رہے۔ یہ تو اب ان کی حادثاتی موت سے اندازہ ہوا کہ قدرت نے ان سے جتنا کام لینا تھا وہ اس کے لئے رات دن ایک کر گئے۔ ان کی زندگی سعادت کی زندگی تھی لیکن ان کی موت بھی شہادت بن گئی۔ 9ستمبر کو ڈاکٹر حسن اپنے بیٹے ابراہیم کے ساتھ پاک فوج کے ادارے (FCNA)کی سالانہ تقاریب اور ان کے بعض تعلیمی اداروںکے وزٹ کے لئے گلگت پہنچے۔ 10ستمبر کو سست کے ایک پروگرام سے فارغ ہو کر واپس جارہے تھے۔ گاڑی ان کا بیٹا ابراہیم چلارہاتھا۔اور ساتھ فرنٹ سیٹ پر (FCNA)کے سابق کمانڈر لفٹینیٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید الحسن تھے جبکہ ڈاکٹر حسن صہیب اور ان کے ساتھ فوج کے ایک کپتان پچھلی سیٹ پرتھے۔سہ پہر 4:40پر جب وہ خنجراب کے قریب تھے تو گاڑی سٹرک کے ساتھ چٹان سے ٹکرا کر ملحقہ پتھروں والی زمین پر الٹتی چلی گئی۔ ڈاکٹر حسن صہیب نے تو حادثے کے کچھ ہی دیر بعد اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی لیکن اپنے پیچھے خیراور صدقہ جاریہ کا بڑا کام چھوڑ گئے۔ بے شک اللہ رب العزت ان سے راضی ہوگا۔
تازہ ترین