• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیائے اسلام کی چودہ صدیوں پر محیط تاریخ کایہ المناک باب ہے کہ حکومتیں تبدیل ہونے کاپر امن جمہوری انداز اپنایا جاسکا نہ اس سلسلے میں اعلیٰ انسانی روایات کو مستحکم بنایا جاسکا (اس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں جن پر ہم اپنے متذکرہ بالا موضوع سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر اس امید کے ساتھ اظہار خیال نہیں کر رہے کہ ہمارے اہل دانش اس سلسلے میں صحتمندانہ مباحث کروائیں گے) اس المیے کی سزا ہم آج بھی نہ صرف پاکستان میں بھگت رہے ہیں بلکہ اس مملکت خداداد کی پون صدی پر محیط تاریخ کا یہ المیہ صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہماری مسلم امہ کا انحطاط جو بھی تھا، غلبے کی تاریخ بھی کم از کم اس سلسلے میں درخشاں مثالیں دینے سے قاصر ہے ہماری احیائے ثانیہ کی موجودہ انگڑائی میں بھی جبکہ ہم چھپن ستاون آزاد خود مختار مسلم ممالک کی حیثیت سے UN کے ممبر بن کر دنیا کے نقشے پر موجود ہیں لیکن جمہوری حوالے سے قابل افسوس صورتحال ملاحظہ کی جا سکتی ہے گو اب اس سلسلے میں کچھ مثبت تجربات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ترکی اور ایران کی مثالیں دی جا سکتی ہیں، اب انڈونیشیا، ملائشیا اور بنگلہ دیش میں بھی جمہوری کاوشیں ہو رہی ہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق اسلام نے As Such کوئی Political System نہیں دیا ہے جس کا ہمارے ہاں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ہاں البتہ کچھ اصولی و اخلاقی ہدایات ضرور ہمیں اس سلسلے میں ملتی ہیں جنہیں کھینچ تان کر اپنے اپنے اسلوب کے مطابق سسٹم بنانے یا دکھانے کی کاوشیں ہمارے اہل فن نے اپنے اپنے ادوار میں کی ہیں۔ ان اصولی و اخلاقی ہدایات میں نمایاں تر ہدایت یہ قرآنی بیان ہے۔’’واَمرھم شوریٰ بینھم‘‘

عربوں میں ’’امر‘‘ قبل اسلام کے ادوار سے ’’حکم، حکومت، حکمرانی‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا چلا آرہا ہے یعنی مسلمانوں کی حکمرانی ان کی باہمی مشاورت پرمبنی ہو گی۔ جسے قائم کرنے کیلئے عربوں میں قبل از اسلام سے بیعت کا واضح تصور بالفعل موجود تھا۔ اس قبائلی سسٹم میں جاری ’’بیعت‘‘ کو ہم فی زمانہ ’’ووٹ‘‘ کے معنوں میں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ تب کے عرب تمدن میں ووٹنگ کا اس سے بہتر طریقہ موجود نہیں تھا۔ معلوم انسانی تاریخ میں اگر ہم ہلکا سا بھی جھانکیں تو ’’اصولی ہدایات‘‘ اور ’’زمینی حقائق‘‘ کی کشمکش ہر دورمیں رہی ہے۔ ان دونوں میں باہمی انطباق، تبدیلی کے پیمبروں کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔

متذکرہ بالا اصولی ہدایت کے ساتھ ہی جب ہم یہ فرمان پڑھتے ہیں کہ الائمہ من القریش’’ حاکم (پیشوا) قریش سے ہو گا‘‘ تواس تفاوت پر بڑی حیرت ہوتی ہے لیکن شاید سچا مصلح محض ہدایات سنانے پر قانع نہیں رہتا ان کے عملی انطباق کا بھی داعی ہوتا ہے۔ آپ جنابؐ اس سلسلے میں کتنے متمنی تھے اس کا ثبوت تو ہمیں کتاب مقدس سے بھی ملتا ہے۔ بہرحال جولوگ عرب نفسیات سے آگاہی رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ عرب کسی کمزور فرد یا قبیلے کی حکمرانی قبول کرنے کے اپنی فطرت کے لحاظ سے خوگر نہ تھے۔ سارے جزیرہ نمائے عرب میں قریشیوں کی دھاک بوجوہ مسلمہ تھی۔ اس سے یہ اصول بھی جھلکتا ہے کہ جو سیاسی یا نسلی جتھہ (پارٹی) اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھتا اس کی جگہ دوسری پاپولر پارٹی کوآنے کا موقع دیاجانا چاہئے۔ یہی معاملہ پارٹی قائد کا بھی ہونا چاہئے اس کا پیمانہ آج کے تمدن میں پارٹی یا قومی الیکشن ہیں تب کے تمدن میں وہی کچھ ممکن تھا جو کچھ سقیفہ بنو ساعد ہ میں ہوا (بحث مباحثہ ٗ کھلے دلائل اس کے بعد بیعت اورپھر حکمرانی)۔

Islamic Jurisprudence کے نمایاں ترین ایکسپرٹ امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں تیسری بیعت کے موقع پربالمقابل شخصیت (سیدنا علی ؓ)کی مقبولیت کو اگر نسبتاً بہتر مان کر فیصلہ کر لیا جاتا تو شاید بعد میں وہ پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں جو فی الواقع وقوع پذیر ہوئیں۔ اگرچہ دوسری بیعت قطعی نامزدگی پر مبنی تھی، بہرحال مسلمانوں نے اپنے دور اول میں بیعت یعنی ووٹنگ یا مقبولیت کی بنا پر حکمرانی چلانے کی کوشش کی اور چوتھی قیادت نے تو جبر کی حکمرانی کا پیش خیمہ بننے والی قوتوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی حتیٰ کہ وہ خود اسی حال میں قتل کر دیئے گئے اورمابعد مذاکرات اور شرائط پرمبنی صلح نامے کے ذریعے جنگ کا سلسلہ روک دیا گیا مگر جب مسلمانوں میں پہلی مرتبہ جبر کی حکمرانی کو باضابطہ موروثی حیثیت دی جانے لگی تو جو شخصیت اس کیخلاف اصولی موقف منوانے کیلئے کھڑی ہوئی اس کا نام حسین ؓہے۔

جناب امام ؓ کو جب اہل عراق کی طرف سے یہ یقین دلا دیا گیا کہ آپ تشریف لائیں آمریت کے سامنے اصولوں کی سربلندی کا بند باندھا جاسکتا ہے تو آنجنابؓ نے اس میں دیر کرنا حکمت عملی کے خلاف جانا حالانکہ حرم نبوی میں ابن عباسؓ جیسی مدبر شخصیت موجودتھی اس تحریک کی کامیابی کے متعلق جن کی رائے جناب حسینؓ سے قطعی مختلف تھی۔ عزم حسینؓ کے سامنے جن کی دانش یوں بے بسی محسوس کر رہی تھی کہ’’حسینؓ تم جس بات کا قصد کر چکے ہو اس سے نہیں رکو گے لیکن یہ بتائے دیتا ہوں کہ تمہارے ساتھ بے وفائی ہو گی اور تم اپنے کنبے کے سامنے اس طرح ذبح کر دیئے جائو گے جس طرح عثمانؓ کر دیئے گئے‘‘۔ ’’عراق جانے سے بہترہے تم یمن کے محفوظ پہاڑوں میں چلے جائو وہاں سے اپناپیغام لوگوں تک پہنچائو اورجدوجہد کرو‘‘۔

’’کامیابی کا کتنے فیصد امکان ہوتوزبردستی کی حکومتوں کے خلاف خروج کرناچاہئے۔‘‘ اس باب میں فقہا کے درمیان خاصا اختلاف ہے اگرچہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے خاصی صائب اور قرین حقائق ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اہل عراق کی طرف سے سیدنا حسینؓ کو بھرپور ساتھ دینے اور جبر کی حکومت کے خلاف تحریک کی کامرانی کا کافی زیادہ یقین دلایا گیا تھا لیکن جب آپ سرزمین کرب و بلا تک پہنچے جابر وچالاک گورنر ابن زیاد نے آمرانہ قوت سے خوفزدہ کرتے ہوئے محبان علیؓ کو بری طرح جکڑ لیا تھا۔ معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ تب حضرت حسینؓ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے اپنے چچا عبداللہ بن عباسؓ کو بہت یاد کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آپ ؓ کے ابن سعد سے تفصیلی مذاکرات بھی ہوئے اور آنجنابؐ نے اپنی وہ تاریخی تین تجاویز پیش کیں جو آپ ؓ کی مظلومیت کا ابد تک ثبوت رہیں گی لیکن جابر حکومت کی ہٹ دھرمی نے تمام اصولی و اخلاقی تجاویز کو ٹھکرا دیا انسانیت اور اخلاقیات کے تمام اصولوں کو ذبح کرڈالا۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں نے اس واقعہ کو اپنے اپنے طور اور انداز میں پیش کیا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسولؐ کی پیش کردہ تینوں تجاویز کس قدربے بسی اورمظلومیت کامظہر تھیں جنہیں وقت کی جابر حکومت کے نمائندے نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔

اول :میں جہاں سے آیا ہوں مجھے وہیں واپس لوٹ جانے کی اجازت دے دی جائے۔

دوم :مجھے یزید کے پاس لے چلوتاکہ ہم دونوں مل بیٹھ کربیعت کا مسئلہ حل کرلیں۔

سوئم: مجھے مسلمانوں کی بیرونی سرحدتک چلے جانے کی اجازت دے دی جائے۔

ان تجاویز و شرائط کو ایک مرتبہ پھر پڑھیے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا جنابِ امامؓ لڑنا چاہ رہے تھے ؟ حضرت امام ؓ جس حیثیت کے تھے اگر اسے نہ بھی دیکھا جاتا پیغمبر خدا سے ان کی نسبت کو بھی قابل التفات نہ سمجھا جاتا پھر بھی ان کی شرائط اس قدر معقول تھیں کہ کوئی ظالم اور سفاک شخص ہی انہیں رد کر سکتا تھا۔ امام حسین ؓکے ساتھ یہی سب سے بڑی زیادتی کی گئی جسے انسانی تاریخ میں آزاد دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی۔

تازہ ترین