• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف، مریم، صفدر رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیلوں کے حتمی فیصلے تک سزائیں معطل کردیں، نیب کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان

اسلام آباد، لاہور (نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائؤں کی معطلی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف،مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ نے کہاہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کیخلاف اسلام آبادہائیکورٹ میں دائر اپیلوں کے فیصلے تک سزائیں معطل رہیں گی۔ عدالت نے مقدمے کا مختصر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وجوہات تفصیلی فیصلے میں دی جائینگی۔دوران سماعت عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے،ریکارڈ پیش کریں،کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہو گا؟نیب پرا سیکیو ٹر نے اپنے دلائل میں بتایا کہ گلف اسٹیل ملز کے 25 فیصد حصص فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، مریم نواز 2012ءتک ان فلیٹس کی بینی فشل اونر تھیں، بعدمیں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بناکر ٹرسٹی بنیں۔دوسری جانب نیب نے شریف فیملی کی سزا معطلی کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ فیصلے کی مصدقہ نقل آ نےکے بعد اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جائیگی۔ رہائی کے بعد باق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر جاتی امرا پہنچ گئے، راستے میں کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ تفصیلات کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو سنائی گئی سزاؤں کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی۔ اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، رانا ثناءاللہ، مشاہداللہ، جاویدہاشمی، دانیال عزیز، مریم اورنگزیب سمیت مسلم لیگ ن کی دیگر قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد کمرۂ عدالت میں موجود تھی جبکہ عدالت کے باہر بھی کارکنان موجود تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے دلائل میں مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ مجرمان کا کہنا ہے کہ گلف مل 1978 میں فروخت کی،ان کے مطابق طارق شفیع اور عبداللہ قائد اہلی کے درمیان فروخت کا معاہدہ ہوا، سپریم کورٹ میں دائر اپنی متفرق درخواستوں میں بھی یہ موقف اپنایا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ موقف درخواست گزاروں کا تھا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی ہاں۔ سوال یہ ہے کہ 12 ملین درہم کیسے دیئے گئے؟طارق شفیع کہتے ہیں کہ 12 ملین درہم قطری کو دئیے جس کی سرمایہ کاری کی، یہ منی ٹریل بنانے کی کوشش کی گئی۔ مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی رقم کی بنیاد یہی 12 ملین درہم ہیں۔تفتیش کے بعد معلوم ہوا فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، ایساریکارڈ دبئی کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گلف کمپنی تو موجود تھی۔ دبئی کی حکومت نے بتایا کہ 25 فیصد شیئرز کی فروخت کی کوئی دستاویز ان کے پاس موجود نہ ہی 12ملین درہم کی منتقلی کا کوئی ثبوت ہے۔یو اے ای حکام نے 12 ملین درہم میں حصص کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق نہیں کی۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزاروں نے گلف اسٹیل سے متعلق دستاویزات احتساب عدالت میں پیش کیں؟ اکرم قریشی نے کہا کہ یہ موقف سپریم کورٹ میں ملزمان کی طرف سے لیا گیا۔ تفتیش سے ثابت ہوا کہ گلف سٹیل ملز کے 25 فیصدحصص کی فروخت کا معاہدہ جعلی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب کو اختیار حاصل ہے کہ تفتیش کے دوران کسی بھی ادارے سے معاونت لے۔ سپریم کورٹ میں مجرموں نے یہ موقف دیا کہ فلیٹس گلف سٹیل کی فروخت سے آئے۔ ہمارے پاس بھی یہی موقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف سٹیل ملز سے آئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمارے پاس کیا مطلب؟ مجرمان تو نیب میں پیش ہی نہیں ہوئے۔ اکرم قریشی نے کہا کہ مریم نواز نے سپریم کورٹ میں سی ایم اے نمبر 7531 کے ذریعے دستاویزات جمع کرائیں۔ دستاویزات میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات کا ذکر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی میں بھی مجرموں کا یہی موقف تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی نہیں ہیں ، جے آئی ٹی اور نیب میں بہت فرق ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قطری شہزادے کو ایک سے زائد خطوط لکھے گئے کہ آپ آکر اپنا بیان قلمبند کرائیں بلکہ انہیں یہاں تک کہا گیا کہ اگر آپ یہاں نہیں آتے تو وہاں آ کر آپ کا بیان قلمبند کرلیں گے۔مریم نواز 2012ءتک ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھیں ، بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں۔مریم نواز جب زیرکفالت تھیں تو نواز شریف پر بوجھ پڑ رہا تھا۔ زیر کفالت بچی مالک کیسے ہو سکتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ 1993 میں مریم نواز کی عمر کیا تھی؟نیب پراسیکیوٹرنےبتایا کہ مریم نواز 20 سال کی تھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے ، پھر مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ میں نہیں کہتا ، قانون کہتا ہے کہ آپ فرض کریں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ان بچوں کے دادا کا وہاں کوئی کاروبار نہیں تھا۔ اکرم قریشی نے کہا کہ یہ ان کا موقف ہے کہ طارق شفیع ان کے دادا کا کاروبار سنبھال رہے تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام فلیٹس بنائے؟ اکرم قریشی نے کہا کہ مریم نواز کی ملکیت چھپانے کے لئے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی ، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتادیں۔ کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہو گا؟ ہم کیسے فرض کریں جب آپ کی اتنی بڑی تفتیش کے بعد نواز شریف کا ان فلیٹس سے تعلق نہیں بن پا رہا۔ نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کر لیں۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ والد کو بچانے کے لئے مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اگر اثاثے چھپائے گئے تو اثاثے بنانے میں سزا کیسے ہوئی؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بارِ ثبوت مجرمان پر تھا کہ وہ بتائیں کہ فلیٹس کیسے بنائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رابرٹ ہیڈلے نے خود کہا کہ کیلبری فونٹ 2005 میں موجود تھا اور ڈائون لوڈ بھی کیا جاسکتا تھا۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے برجستہ جواب دیا کہ سر کوئی سوال خواجہ صاحب سے بھی پوچھ لیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بات تو لائٹ موڈ میں ہوگئی ، اچھی بات ہے ، ہم نے انہیں بھی سنا ہے ، کچھ سوالات ذہن میں تھے جو آپ سے پوچھے۔ کوئی کیس بتا دیں جس میں بار ثبوت ملزمان پر ڈالا گیا ہو۔

تازہ ترین