سب متفق ہیںکہ احتساب عدالت کا 6جولائی کا فیصلہ جس میں معزول وزیراعظم نوازشریف ، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو سزائیں دی گئی انتہائی ناقص اور کمزور ہے ۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ فیصلہ مفروضوں پر دیا گیا اور پراسیکیوشن یعنی نیب ملزمان کے خلاف کوئی ایک بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ اس فیصلے کو بحال رکھتی تو خصوصاً قانونی ماہرین پریشان ہو جاتے ۔ جب نیب یہ ثابت ہی نہیں کر سکا کہ نوازشریف ایون فیلڈ فلیٹوں کے مالک ہیں تو سزا کیسی ۔ جب نوازشریف مالک ہی ثابت نہیں ہو سکے تو مریم نے ان کی ’’جرم‘‘ میں اعانت کیسے کی ۔ ویسے بھی فوجداری مقدمات میں شک و شبہ سے بالا تر ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر ہی ملزمان کو سزا دی جاسکتی ہے اور اگر کسی قسم کا کوئی شک ہو تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے تاہم اس فیصلے میں سب کچھ الٹ ہی ہوا ۔ ویسے بھی نیب کو قصوروار ٹھہرانا نامناسب ہے کیونکہ اس نے نہ صرف اس ریفرنس بلکہ دوسرے 2مقدمات جو شریف فیملی کیخلاف احتساب عدالت میں دائر کئے گئے سرے سے کوئی تفتیش کی ہی نہیں۔ اس نے تو عدالت عظمیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر ہی یہ تمام ریفرنس فا ئل کئے ۔
ان مقدمات میںدراصل جے آئی ٹی کو پراسیکیوشن ہونا چاہئے تھے کیونکہ اس نے ہی ساری تفتیش اور تحقیقات کی تھیں لیکن یہ قانون کے تحت ممکن نہیں تھا۔ نیب کے پراسیکیوٹروں نے تو بڑی محنت سے نوازشریف کے خلاف کیس لڑا اور ہر حربہ استعمال کیا کہ نہ تو اس کا فیصلہ جلدی ہو اور نہ ہی سابق وزیراعظم سزا سے بچ سکیں۔ جے آئی ٹی کے پاس نوازشریف کیخلاف سب سے بڑا ’’ٹھوس ‘‘ثبوت یہ تھا کہ وہ جب بھی لندن جاتے اس کمرے میں سوتے تھے جہاں انکے والد مرحوم میاں محمد شریف سویا کرتے تھے ۔ کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نوازشریف کو سزا دینے کا مقصد کیا تھا۔ یہ اسکیم گزشتہ سال کے آغاز میں پاناما کیس سے شروع ہوئی تھی جس کی تکمیل کیلئے بے شمار مراحل طے کرنے پڑے ۔ مقصد تو حاصل ہو گیا یعنی نوازشریف کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا ، انہیں سزا دے دی گئی اور قید کر دیا گیا مگر ان پونے دو سالوں میں ملک کو جو بہت بڑا نقصان ہوا اسکے بارے میں کسی نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔جب 6جولائی کو احتساب عدالت کا فیصلہ آیا تو انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ نوازشریف پہلے ہی بیگم کلثوم کی سخت بیماری کی وجہ سے 14جون سے لندن میں تھے اور الیکشن کمپین میں حصہ لینے سے قاصر تھے ۔ اپنے مخالفین کے حملوں اور طنز سے بچنے کے لئے 13جولائی کو بیٹی کے ہمراہ بیمار زوجہ کو اسپتال میں چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے تاکہ وہ گرفتاری دے سکیں۔ ہمارے ہاں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس طرح انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ قید و بند سے بھاگنے والے نہیں ہیں۔ وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انکے لئے بڑا آسان تھا کہ وہ لندن میں رہتے ۔ ظاہر ہے ایسا کرنے سے ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔
احتساب عدالت کے فیصلے کی معطلی عارضی ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی اپیلوں پر فیصلہ نہیں کرتی اور جب تک سپریم کورٹ اس معطلی کو نیب کی اپیل پر ریورس نہیں کر دیتی۔ آخری فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی کارروائی نے شریف فیملی کے خلاف یکطرفہ احتساب کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور جے آئی ٹی کو مکمل طور پر ناک ڈائون کر دیا ۔ اس کا اثر یقیناً باقی جو دو ریفرنس احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں پر بھی پڑے گا کیونکہ ان میں بھی نیب کے ’’ثبوت‘‘ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ایون فیلڈ کیس میں تھے ۔اگر مریم لندن اپارٹمنٹس ریفرنس میں بری ہو جاتی ہیں تو ان کی بھرپور سیاست کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ دوسرے دو ریفرنسوں میں نیب نے ان کو ملزمہ نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی اور کسی قسم کا کوئی مقدمہ ہے ۔ مریم فی الحال تو والدہ کی وفات کی وجہ سے سخت صدمے میں ہیں اور اگلے کئی روز وہ سیاست سے دور ہی رہیں گی ۔نوازشریف چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی ہی ان کی سیاست کو سنبھالے کیونکہ اس میں بہت خوبیاں ہیں اور یہ ثابت کر چکی ہے کہ وہ بڑی بہادر اور ثابت قدم ہیں جو کہ سخت تکالیف کو بھی بڑی دلیری سے برداشت کر لیتی ہیں ۔یقیناً سیاست میں مستقبل مریم کا ہے ۔ ان کی عمر بھی on her sideہے جبکہ باقی سارے بڑے بڑے سیاستدان 65سے اوپر کے ہیں اور اپنی آخری سیاسی اننگز کھیل رہے ہیں ۔نوازشریف کی سپریم کورٹ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے نااہلی اور ان کی پارٹی صدارت سے محرومی کے بعد شہبازشریف ن لیگ کے صدر منتخب ہو ئے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ارینجمنٹ زیادہ دیر نہ چل سکے جب مریم سیاست میں مکمل طور پر سرگرم ہوں گی۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ جونہی وہ سوگ سے باہر آئیں گی تو کسی قومی اسمبلی کی نشست سے ضمنی الیکشن بھی لڑ لیں ۔نوازشریف بھی اس وقت اپنی زوجہ کی وفات کی وجہ سے بڑی تکلیف میں ہیں انہیں بھی نارمل ہونے میںکچھ دن لگیں گے ۔آج سے 22دن بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 37حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں جن کے لئے ن لیگ کی کمپین کافی سست نظر آرہی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند روز میں نوازشریف اور مریم اپنے امیدواروں کو حوصلہ اور مدد دینے کے لئے ایک دو جلسے کریں۔ان کی رہائی سے ن لیگ جو کافی مشکلات کا شکار تھی میں ایک نئی جان پڑ گئی ہے ۔ جب یہ اپنے ورکرز کے درمیان موجود ہوں گے تو کارکنوں میں پرانہ ولولہ بحال ہو جائے گا۔ جب نوازشریف اور مریم 66دن اڈیالہ جیل میں رہے تو انہوں نے قید و بند کے بارے میں بالکل کوئی شکایت نہیں کی بلکہ وہ کئی سہولتیں جو کہ انہیں قانون کے تحت مل سکتی تھیں لینے سے انکار کرتے رہے ۔ انہیں سہالہ ریسٹ ہائوس ٹرانسفر کرنے کا بھی کہا گیا مگر انہوں نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ جب نوازشریف کی صحت کافی خراب ہوئی تو ڈاکٹروں نے ان کی مرضی کے خلاف انہیں پمز اسلام آباد شفٹ کیا جہاں وہ بار بار کہتے رہے کہ انہیں واپس جیل منتقل کیا جائے اورسخت حبس اور گرمی کے موسم میں انہوں نے اپنے سیل میں رہنے کو ترجیح دی ۔ ان کے مخالفین کا خیال تھا کہ اس طرح کے حالات میں نوازشریف اور مریم چند دنوں میں ہی بریک ہو جائیں گے مگر انہیں مایوسی ہوئی ۔یہاںتک کہ سابق وزیراعظم نے بیگم کلثوم کی وفات پر پیرول پر رہائی سے بھی انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ حکومت وقت سے کسی قسم کی کوئی درخواست کریں مگر انکے بھائی شہبازشریف نے انہیں قائل کر لیا ۔یہ ڈس انفارمیشن بھی پھیلائی گئی کہ نوازشریف پیرول میں ایکسٹینشن چاہتے ہیں مگر وہ حکومت کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن پر اڈیالہ جیل پہنچ گئے ۔جس طرح سے ایک عرصے سے سیاست نوازشریف کے گرد ہی گھوم رہی ہے اسی طرح آنے والے وقت میں بھی سیاسی فوکس سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی پر ہی رہےگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)