کراچی میں ایک بار پھر بچوں کے اغواءاور گمشدگی کے واقعات کی خبریں زیر گردش ہیں،دوسری جانب اسٹریٹ کرائم کا جن بھی قابو میں نہیں آ رہا۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ کراچی میں بھی اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے حوالے سے معاملات زیر بحث آئے،گو کہ کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کافی متحرک ہیں اور حالات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کےلیےانہیں ایک بہترین ٹیم تیار کرنا ہو گی ۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کئی بچوں کی گمشدگی اور اغواء کے واقعات رپورٹ ہونے کےبعد والدین خوف و ہراس کا شکار ہیں۔تاہم کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا ہے کہ شہر میں بچوں کی اغواء کی وارداتوں کو غلط اندازمیں پیش کیا جا رہا ہے۔حالات اتنے تشویش ناک نہیں ہیں کہ بچوں کواسکولوں سے اٹھایا جا رہا ہے۔پولیس نے ویمن تھانوں میں چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز قائم کر دیئے ہیں ۔ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق سال2018سے اب تک 146بچے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہوئے جن میں سے 126بچوں کا پتہ چلا لیا گیا یا وہ خود گھر واپس آ گئے،ان میں سے صرف8بچوں کوتاوان کے لیے اغواء کیا گیا۔ ڈاکٹر امیر شیخ نے بتایا کہ پولیس نے رواں سال بچوں کے اغواء میں ملوث تین ملزمان کو مقابلے میں ہلاک کیا جب کہ 22ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا،ضلع ویسٹ سے40،ڈسٹرکٹ ایسٹ سے33،ضلع ملیرسے23،کورنگی سے21،سینٹرل سے17اورساؤتھ سے12 بچے لاپتہ ہوئے،لاپتہ ہونے والے بچوں میں121بچے جب کہ 25بچیاں تھیں۔انہوں نے بتایا کہ پانچ سال تک کے12،چھ سےدس سال کے32،گیارہ سےپندرہ سال کی عمر کے58اورسولہ سےاٹھارہ سال کے24بچے لاپتہ ہوئے اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ماؤں کی گودوں سے بچے چھینے جا رہے ہیں۔لاپتہ ہونے والے95فیصد بچے اپنی مرضی سے گئے، جو بچے پولیس نے بازیاب کیے، ان کی عمریں 5 سے 17سال ہیں،ان میں 66 فیصد بچوں کی عمریں10 سال سے زیادہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر بچے شہر کے مضافاتی علاقوں سے لاپتہ ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تربچے ماں باپ کے رویوں ،امتحان میں اچھے نتائج نہ آنے ،ماں باپ کی آپس کی ناچاقی ، اپنی پسند کی لڑکی کے بارے میں والدین کی ناپسندیدگی،زبردستی فیکٹری یا دیگر جگہوں پر کام کروانے کی وجہ سے گھر سے چلے جاتے ہیں۔ڈاکٹر امیر شیخ نے والدین سے درخواست کی کہ وہ اپنے بچوں پر توجہ دیں ،انھیں وقت دیں،ان پر خوامخواہ دباؤ مت ڈالیںاوربچوں کے سامنے نہ لڑیں۔انہوں نے کہا کہ بچوں کی گم شدگی کی فوری ایف آئی آر درج کر رہے ہیں۔کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ پولیس،سی پی ایل سی اور روشنی فاؤنڈیشن کے تعاون سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ رسپانس سینٹرز بنائے گئے ہیں اور اس کے لیے ایک ہیلپ لائن1138بنائی گئی ہے۔اگر کسی کا بچہ گھر نہیں پہنچتا تو وہ فوری طور پراس ہیلپ لائن پر کال کریں،ہم نے شہر کے تینوں ویمن پولیس اسٹیشنز میں یہ سینٹرز قائم کیے ہیں اور ان سینٹرز کے ذریعے ہم والدین کو اخلاقی،نفسیاتی اور قانونی سپورٹ دیں گے۔اس سلسلے میں پولیس کے تفتیشی افسران کو خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔اغواء ہونے والے بچوں کو انیٹی وائلنٹ کرائم سیل دیکھے گا جب کہ گمشدہ بچوں کے لیے اخبارات اور چینلز پر اشتہارات چلوائے جائیں گے۔،انہوں نے چینلز سے اپیل کی کہ وہ پرائم ٹائم میں کچھ جگہ ہمیں دیں۔ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات میڈیا کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے والدین پریشان ہو جاتے ہیں اور شہر میں افرا تفری پھیل جاتی ہے اس لیے میڈیا رپورٹنگ میں جلد بازی نہ کرے۔انہوں نےکہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ پولیس بھی ٹھیک رسپانس نہیں کرتی اور اس حوالے سے ہم بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی بڑی وجہ منشیات ہے۔ زیادہ تر ملزمان منشیات کے استعمال میںملوث ہیں جو اپنا نشہ پورا کرنے کے لئےلوٹ مار اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہیں۔امیر شیخ نے بتایا کہ شہر کے 20بڑے منشیات ڈیلروں کو پکڑنے کے لئے حکومت کو ان کے سر کی قیمت10 لاکھ روپے فی کس مقرر کرنے کی سفارش کی ہے،یہ افراد اپنے علاقوں کے ’’رابن ہڈ‘‘ بنے ہوئے ہیں،لوگوں کی بچیوں کی شادیوں کے پیسے دیتے ہیں ،قرض دیتے ہیں اور اس منشیات کے پیسوں سے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر تے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نشے میں مبتلا افراد کی بحالی کے لیے سندھ میں صرف ایک ری ہیبیلیٹیشن سینٹر ہے ۔انہوں نے والدین سے درخواست کی کہ وہ اپنے بچوں کے بستے لازمی چیک کریں کیونکہ اچھے گھرانوں کے بچے بھی نشے کی لعنت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔جو بچے گھر سے چلے جاتے ہیں وہ بھی منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائم کےسدباب کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق ہم نے بہت سے اسٹریٹ کرمنلز سی سی ٹی وی کی مدد سے پکڑے ہیں،اگر شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے ٹھیک کام کریں تو اسٹریٹ کرمنلز پکڑے جا سکتے ہیں۔سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے گرفتار ہونے والے ملزم کے خلاف ثبوت بھی پکے ہوتے ہیں اور انہیں کورٹ میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔