• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلسل جعلسازیوں اور دو نمبری سے ہاتھ لگا رزق حرام ہو یاسیاسی فنکاریوں اور مکاریوں سے ہتھے لگی بادشاہت نما جمہوری حکومت اور اس کے بے آئینی فرعونی اختیار اور ان کا ظالمانہ عوام دشمن استعمال یا پھر عالمی سیاست کے میدان میں انڈر ورلڈ کے کالے سرمایے سے کسی جمبو سائز ریاست کو جدت جمہوریت اور سیکولرازم کے سفر سے کاٹ کر بذریعہ نیشنل میڈیا مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی پر ڈال کر اسے منتخب حکومت میں ڈال کر کسی قاتل دہشت گرد کو اقتدار میں لانے کی عالمی شعبدہ بازی ۔۔۔ اور اس سب کے مقابل رزق حلال کے حصول کی جہد ، ظالم و جابر و خائن حکمرانوں کے خلاف عسکری جہاد اور سیاسی جدوجہد اور حریت فکر کا سلسلہ انسانی زندگی میں تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ بھائی کے قتل کی نوبت پر پہنچے جھگڑے سے شروع ہونے والے اس مقابلے و معرکے کا اختتام تو مہدی ودجال کے آخری عالمی گھمسان پر ہو گا۔ جب حق کا غلبہ ہو گا، پھر قیامت آئے گی۔ ایک معرکہ یزدیت کی بیعت سے انکار پر پانی کی بندش کے بعد آل رسولؐ کے سر کٹانے اور خون بہانے سے شروع ہوا۔ جو شہادتوں کے طفیل قیام پاکستان جیسی عظیم کامیابیوں کی صورت جاری ہے۔

آج بھارت کی بنیاد پرست سرکار جو شہداء کے خون سے بنے پاکستان کے دریائوں کا رخ اپنی طرف منہ موڑ کر صحرا میں تبدیل کرنے کی شیطانیت کے مذموم ارادوں کا کھلے عام اظہار کر رہی ہے تو دوسری جانب ملک کی اپنی گروہی اور ذاتی اغراض کے گنبد میں بند ’’نیشنلسٹ‘‘ علاقائی قیادتیں ، کرپٹ سیاسی قوتیں اور ان کے حواری اسٹیٹس کو کے پجاری اپنی بزدلی کی آڑ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے قوم و عوامی اظہار اور سرگرمی پر اپنی بزدلی کی آڑ میں قوم کو بدستور بلیک میلنگ سے جاری قومی خاموشی کو جاری رکھنے کیلئے رہنے درس دینے نکل آئے ہیں۔ یہ صوبوں کا اتحاد اور جمہوریت کا تحفظ بلیک میلنگ پر برسوں کی قومی خاموشی میں تلاش کر رہے ہیں؟ یا کسی قیمت پر ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں؟ اس سوال کا عین درست جواب ابھی مطلوب ہے۔ ہر دو سوال پیدا ہونے کا جواز موجود ہے کہ اب یہ کھلا راز ہے کہ قیام پاکستان کے فقط ایک سال بعد جب پاکستان، بابائے قوم حضرت قائداعظم کے عزم کے مطابق حصول کشمیر پر قائم رہنا معلوم دیا تو، عین اس وقت پاکستانی نہروں کے لئے دریائی پانی کو روک دیا گیا۔ جب ہماری تیار ہوئی گندم کی فصلوں کو اس پانی کی اشد ضرورت تھی۔ یوں کشمیر کے مقابل بارگیننگ کیلئے ایک اور تنازع پیدا کر دیا۔ یوں ابتداء میں ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان یک نہ شددو تنازعے پیدا کر دیئے گئے۔ پاکستان کو دریائی پانی سے مرضی کے مطابق محروم رکھنے کی بھارتی شیطانی سازش پاکستان کیلئے کتنی سنگین تھی۔ اس کے حقائق اور تفصیلات ہمارے ایک گزرے وزیراعظم چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب Emergence of Pakistan (ظہور پاکستان کے نام سے ترجمہ بھی دستیاب ہے) میں درج کی ہیں۔ آنے والے سالوں میں نہری پانی کی تقسیم جس طرح مسئلہ کشمیر کے مقابل و متوازی ایک اور مسئلے کے طور پر کھڑا ہوگیا، اور اسے پاکستان کیلئے اتنا الارمننگ بنا دیا گیا کہ آنے والی پاکستانی نسل اپنی سرزمین کی جانب ، پنجاب کے شہرہ آفاق پانچ دریائی نظام کے دو (جنوبی) دریائوں ستلج اور بیاس سے محروم کر دی گئی، اور آج مودی اور اس کے انتہا پسند وزراء تمام بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور گارنٹیز کو جوتی کی نوک پر رکھ کر کھلم کھلا پاکستان کی جانب دریائوں کے قدرتی بہائو کو بھارتی علاقے میں واٹر مینجمنٹ جیسی با برکت سائنس کو عملاً شیطانی اقدامات میں تبدیل کرنے پر تل گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے دونوں ایٹمی طاقتوں میں وہ جنگ یقینی ہو جائے گی جسے زیادہ تر بین الاقوامی امور اور سلامتی کے بڑے بڑے ماہرین اب خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ تاہم سابق امریکی صدر کلنٹن نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے گزرنے والی پاکستان کی لائف لائن (دریائی بہائو) کی حساسیت اور دونوں ملکی کی ایٹمی حیثیت کے پیش نظر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے دنیا کو انتباہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی سیاست میں ایک فلیش پوائنٹ ہے۔یہ تو بھارتی بنیاد پرست حکومت کی پاکستان کی جانب تشویشناک شیطانی ذہنیت اور عمل میں ڈھلتے مذموم ارادوں کی کہانی کا ایک پہلو اور اس کا تاریخی پس منظر ہے۔

دوسری جانب بھارت کےشیطانی پلان کی پاکستان میں جزوی کامیابی ہے۔ یہ بھی ایک عشروں پر محیط کہانی ہے کہ واپڈا کے سابق چیئرمین جناب شمس الملک کی دو سے زیادہ پریس کانفرنسز کے حوالے سے یہ مسلسل باعث تشویش حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ علاقائی نیشنلسٹ سیاسی لیڈروں کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے روکے رکھنے کیلئے سالانہ اربوں میں روپے تقسیم کرتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم‘‘ منصوبے کی تمام تر مجوزہ برکات و ثمرات کے باوجود ’’منصوبہ ممنوعہ ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ جس پر پارلیمان ، کابینہ، سیاسی علمی فورم حتیٰ کہ آزاد میڈیا تک میں اس پر بات کرنا ملکی یکجہتی کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور اس پر خاموشی کو حب الوطنی اور سیاسی دانش یوں بڑے بڑے حق گواور منہ پھٹ خاموش کر دیئے گئے۔ قومی سطح پر ابلاغ میں ’’کامیاب ترین بلیک میلنگ‘‘ کی دنیائے ابلاغ عامہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب بھی ’’کالا باغ ڈیم‘‘ پر بولنا، لکھنا ایک دبائو، خطرہ، تشویش اور کھلی بلیک میلنگ ہے۔

ارباب اقتدار ، صحافتی تنظیمیں جناب چیف جسٹس نہتے شہریوں کی سلامتی کے ادارے اور سب سے بڑھ کر ’’آئین نو ‘‘ کے قارئین متوجہ ہوں ناچیز درس و تدریس کے روزگار کے ساتھ ساتھ اپنی قلمی مزدوری میں پیشہ ورانہ تقاضے کے مطابق اپنی صحافتی عادت کے مطابق ’’آئین نو‘‘ کے موضوع کا انتخاب حالات حاضرہ کی تازہ ترین خبروں میں سے اس خبر کو منتخب کرتا ہے جو وسیع تر قومی و عوامی مفادات کی ہو۔ محتاط اندازے کے مطابق 75سے 85فیصد پریکٹس تو یہ ہی ہے۔ 5جون 2018ء کے ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’کالا باغ ڈیم، نئی پارلیمان کا منتظر‘‘ اسی صفحے پر شائع ہوا تو یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئے راستے میں ایک شاپنگ سینٹر پر رکا۔ باہر نکلا تو پارکنگ لاٹ میں کار میں داخل ہوتے ایک نوجوان میرے قریب آ کر میرے نام اور پیشے کے ساتھ تصدیق کرنے لگا، مجھے یوں لگا میرا کوئی سٹوڈنٹ رہا ہے ، لیکن اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا سر جی یہ آپ کتنے سالوں سے اپنے کالم میں گمراہی پھیلا رہے ہیں، اسے روکیں۔ اب آپ نے مردہ کالا باغ ڈیم پر لکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بند کریں وگرنہ ایک ہی کتابچہ آپ کی ساری کالم نویسی ختم کر دے گی اور آپ کی عزت کو نقصان پہنچے گا۔

آج میرے صحافی دوستوں، حلقہ یاراں، میڈیا میں کام کرے والے شاگردوں اور اساتذہ کو ایک کتاب بھیجی جا رہی ہے۔ عنوان ہے ’’سسکتی مسکراتی زندگی‘‘ بڑی مکاری سے ترتیب دیتے ہوئے میرے ایک سال ’’رفیق‘‘ کار نے اس میں خالصتاً پروپیگنڈ زبان استعمال کرکے بطور استاذ، پیشہ ور صحافی اور عام شہری کے میری کریڈیبیلٹی اور وقار پر حملہ کیا ہے۔ یہ ہی نہیں میرے ایک فاضل استاد اور محترم رفقاء کار پر بھی شاید کور دینے کیلئے واللہ عالم! پارکنگ لاٹ میں ملنے والی دھمکی اور حملے میں کیا تعلق ہے۔ یہ معمہ میں خود تو حل نہیں کر سکتا لیکن دھمکی اور حملے میں مطابقت تو ہے۔ یوں بھی حملہ آور میرے پیشہ ورانہ کیرئیر میں مجھے بے روزگار کرنے کی منظم سازش کے ساتھ تین کوششیں کر چکا ہے۔ جس میں سے ایک میری بے خبری (کہ خبر بہت تاخیر سے مصدقہ بنی) کے باعث کامیاب ہوئی۔ نہ جانے حملہ آور کی حسد کی بنیاد کیا ہے اور کیسے اس کے دل کا جلتا الائو ٹھنڈا ہو گا۔ سسکتی زندگی اس جعلی مسکراہٹوں کا کیونکر علاج بنے گی۔ فالو اپ یوں بھی ہے کہ اب ہمیں ہمارے ’’مہربان’’ کالا باغ ڈیم پر اپنی رائے اور تجزبہ کرنے پر انتہا پسند ’’مجاہد‘‘ قرار دے رہے۔ عالم ان کی صحافت کا یہ ہے کہ وہ کرپشن کلچر خاندانی سیاسی اجارہ دری، بد ترین گورننس اور اسٹیٹس کو کی ہر برائی سے جمہوریت کشید کرنے میں لگے رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین