• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موثر وزیر اعلیٰ بننے کیلئے عثمان بزدار کو چیلنجز کا سامنا

اسلام آباد (انصار عباسی) پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک سادہ انسان ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انتظامی امور کے حوالے سے ان کے پاس تجربے کی کمی ہیں لیکن اپنے ملنے والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ وہ خود کو بہتر بنائیں گئے۔ وہ لوگ جو وزیراعلیٰ کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کہتے ہیں ڈی پی او پاک پتن والے واقعے کے بعد ، جس نے انکی حکومت اور حکمران جماعت پی ٹی آئی کو ہلاکر رکھ دیا، عثمان بزدار غیر معمولی طور پر محتاط ہوگئے ہیں ۔ ایک ذریعے کے مطابق وزیر اعلیٰ اور ان کی سیکریریٹ کی جانب سے اب شاذ و نادر ہی کوئی سیاسی مداخلت ہوتی ہواور اب طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ تمام متعلقہ افسران تمام امور میں چاہے وہ پی ٹی آئی کے اراکین ہی سفارش ہی کیوں نہ ہو، قانون اور ضوابط کی پاسداری کریں گے۔ ایک ذریعے کے مطابق جن کی حال ہی میں وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی، بزدار ایک سادہ انسان ہیں اور تجربے کی کمی تسلیم کرتے ہیںلیکن ساتھ ہی وہ سیاسی احباب اور سول بیوروکریسی کا تعاون چاہتے ہیں تاکہ عوام کی توقعات کے مطابق وعدوں کی تکمیل کرسکیں۔ سول بیوروکریسی کے ایک ذریعے نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ وزیراعلیٰ بزدار نے ایک اچھے اور کہنہ مشق سیکریٹری، ڈاکٹر راحیل صدیق کو اپنے سیکریٹریٹ کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ڈاکٹر صدیق کا تعلق بہاولپور سے ہے اور وہ جنوبی پنجاب کی ثقافت، انتظامی امور اور سیاست کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں بطور پولیٹکل ایجنٹ ذمہ داریاں سرانجام دی ہیں، تاہم یہ امتحان ابھی باقی ہے کہ دیگر حلقوں کی طرف سے سیکریٹری کو آزادانہ حیثیت میں وزیراعلی کیلئے خدمات سرانجام کرنے دی جائیں۔ ایک ذریعے کے مطابق بزدار شاید خود کو بہتر بناتے ہوئے عمران خان کی توقع کے مطابق اپنے ناقدین کو ورطہ حیریت میں ڈال دیں تاہم موجودہ حالات میں وہ ایک پرانی کہاوت کا مظہر ہے جس کے مطابق بندہ آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن ہرطرف سے وہ زنجیروں میں قید ہے۔ اگر شہباز شریف ایک مضبوط وزیراعلیٰ کے طور پر جانے جاتے تھے جن کا پنجاب میں اپنی حکومت کے تحت ہر چیز پر مکمل کنٹرول تھا، انکے جانشین عثمان بزدار کو تا حال قیادت کی کوئی بھی نشانی دکھانا باقی ہے جس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا کر دیگر افراد ان کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرسکیںگے۔ آئین اور قانون کے مطابق مقرر کردہ خالص صوبائی دائرہ اختیار کے بعض فیصلے وفاقی حکومت بشمول وزیراعظم عمران خان اوران کی کابینہ کے اراکین کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مقا می حکومتوں کے نظام، صوبائی وسائل سے بننے والی لاہور ، ملتان اور راولپنڈی کے میٹرو منصوبوں کے آڈٹ، اور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار کے تحت آنیوالے گھروں کے معاملات کے حوالے سے فیصلے صوبائی کابینہ کی جانب سے کئے جانے چاہیے تھے نہ کہ وفاقی حکومت کی جانب سے۔ باخبر ذرائع کے مطابق جب بھی اسلام آباد جاتے ہیں وہ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سامنے واقع گرینڈ 90لاہور، جو کہ وزیراعلیٰ ہاوس تھا اور اپنی عظمت اور تاریخ کی وجہ سے سرکاری تقاریب کیلئے استعمال ہوتا تھا، اس پر پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ گرینڈ 90لاہورنے ہلیری کلنٹن سمیت متعدد اہم شخصیات کی میزبانی کی ہے۔ وزیراعلیٰ کے مقابلے میں گورنر پنجاب چوہدری سرور صوبے میں زیادہ فعال نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بعض اراکین اسمبلی کا بھی خیال ہے کہ چوہدری سرور بعض ایسے امور سرانجام دیتے نظر آئیں گے جو وزیراعلیٰ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے سے، جو پہلے شہباز شریف کے ساتھ کام کر چکے اور اب عثمان بزدار کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جب بزدار اور شہباز شریف کے درمیان فرق کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا دن صبح 6بجے شروع ہوتا تھا اور رات 11یا 12بجے ختم ہوتا جبکہ عثمان بزدار کا دن صبح 10بجے کے قریب شروع ہوتا ہے اور وہ شاید ہو شام 5بجے کے بعد کوئی کام کری، نہ ہی کوئی وڈیو کانفرنس، اور نہ ہی کوئی ڈینگی سے متعلق اجلاس۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کے تحت اب تک کے ہونیوالے کابینہ اجلاس میں ق لیگ کے راجہ بشارت، محمود الرشید اور علیم خان حاوی رہتے ہیں۔ بہت سوں کے نزدیک یہ ایک مضبوط ترین وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کمزور ترین وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی طرف ارتقا کا عمل ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں عثمان بزدار کو کارکردگی دکھانے کیلئے وقت دیا جانا چاہیے۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بزدار کو اتنی جلدی پرکھنا انصاف نہیں۔ ایک ذریعے کے مطابق شہباز شریف تقریبا روزانہ کی بنیاد پر ضلع افسران کے ساتھ مختلف امور کے حوالے سے وڈیو کانفرنس کیا کرتے تھے۔ شہباز شریف نے ہر ڈویژن کی مانیٹرنگ کیلئے ایک سیکریٹری رکھا ہوا تھا، سیکریٹری برائے امن و امان، سیکریٹری برائے عمل درآمد، سیکریٹری برائے سی پیک، سیکریٹری برائے پارلیمانی تعاون، اور ان سب کے اوپر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں پرنسپل سیکریٹری۔ عثمان بزدار کے پاس صرف ایک سیکریٹری ہے۔ اس بھرے پرے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے شہباز شریف بیوروکریسی کو استعمال کرتے ہوے پورے کو کنٹرول کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ انہوں نے اختیارات اپنے ذات تک مرتکز کئے ہوئے ہیں اور دوسروں بشمول کابینہ اراکین کے کام کرنے کیلئے کم جگہ چھوڑی ہے۔

تازہ ترین