• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روحانیت کیا ہے؟ روحانی نظام ہے بھی یا نہیں اور کیسے کام کرتا ہے؟ کیا پاکستان کے فیصلے روحانی حکمران کرتے ہیں؟ کیا پاکستان روحانیت کے دورمیں داخل ہوچکا ہے؟ دنیا کی دلدل میں پھنسا میں ایک عام انسان ہوں اس لئے یہ سارے سوالات و معاملات میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ میں صرف اتنی سی بات مانتا ہوں جتنی میرے مشاہدے اورتجربے میں آئی ہو یا جسے میں نے حقیقت کاروپ دھارتے دیکھا ہو۔ ظاہرہے کہ ان سوالات کاجواب صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو خود صاحب ِباطن ہو۔ روحانی خبر کی اطلاع بھی صرف ایسی ہی روحانی شخصیت کو مل سکتی ہے جس کا قلب نور ِ معرفت سے منور ہو۔ قدرت کے یہ راز یا میرا رب جانتا ہے یا پھر اس کی برگزیدہ ہستیاں جنہیں علم کےبےپایاں سمندر سے کبھی قطرہ اورکبھی نصف قطرہ عطا کردیا جاتا ہے۔ عطا ظرف کے مطابق ہوتی ہے اوریہ عطا دراصل عطائے ربی ّ ہوتی ہے۔ ہمارے اکثر مہربان عالم و فاضل دوست جن کا کتابی علم اور مطالعہ قابل رشک ہے، روحانیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ روحانی وارداتیں مادی مطالعے کی کسوٹی پرپوری نہیں اترتیں۔ جوچیز عالم حقیقت میں واقع نہ ہو، نظر نہ آئے اور محسوس نہ کی جاسکے اسے تسلیم کرنا عقلی تقاضوں کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے جو لوگ ایسی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں انہیں ضعیف الاعتقاد اور پڑھالکھا ’’جاہل‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ بظاہر یہ جہالت ہی ہے کہ انسان ایسی بات پر یقین کرلے جو نہ نظر آرہی ہے اور نہ عقل کے پیمانوں پرپورا اترتی ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ جب ہمارے نہایت عالم و فاضل حضرات روحانی شعبے کے حوالے سے طنز کرتے ہیں یا اس سے انکار کرتے ہیں تو میں اس صورتحال سے لطف اندوزہوتا ہوں لیکن انہیں لاعلم بالکل نہیں سمجھتا کیونکہ ان کے حافظے سینکڑوں کتابوں کے امین ہیں، یقیناً آپ نے مولانا جلال الدین رومی،مرشد اقبال .... کی روداد کے حوالے سے وہ مشہور واقعہ پڑھا ہوگا یا سنا ہوگا۔ مولانا رومی نہایت عالم و فاضل شخصیت تھے اور لاتعداد کتابوںکے مطالعےسے مستفید ہوکرفلاسفر کے مقام پر متمکن تھے۔ طویل واردات کو مختصرکرتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے کہ مولانا رومی بھاری بھرکم کتابوں کے ساتھ اپنے شاگردوں کو سمجھا رہےتھے۔پاس سے ایک میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس فقیر کاگزرہوا۔ لوگ اس وقت انہیں پہچانتے نہیںتھے کیونکہ وہ کچھ تارک ِ دنیا اور کچھ گمنامی کی زندگی گزاررہے تھے۔ وہ تھے روحانی دنیا کے تاجدار حضرت شمس تبریز۔ وہ مولانارومی کی جانب بڑھے، چند باتیں ہوئیں اور حضرت شمس نے ان کی کتابیں اٹھا کر تالاب میں پھینک دیں۔ مولانارومی کو اپنی قیمتی کتابوں کو’’پانی برد‘‘ہوتے دیکھ کر غصہ بھی آیا اور صدمہ بھی ہوا۔ انہوں نے غصے سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا۔ علم و حکمت کی نایاب کتابوں کو تالاب کی نذر کردیا۔ حضرت مولانا شمس تبریز نے ایک نگاہ مولانا رومی پر ڈالی کہ تم کن کتابوں کے علم میں مگن ہو، اصلی علم یہ نہیں۔ اصلی علم فقیروں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں سے ملتاہے جن پر اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے۔ مولانا شمس تبریز نے تالاب میںہاتھ ڈالا اور مولانارومی کی کتابوںکو باہر نکال لیا۔ وہ بالکل خشک تھیں۔ مولانا شمس تبریز وہاں سے چل پڑے تو مولانا رومی بھی سب کچھ چھوڑ کر ان کے پیچھے ہولئے۔ کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعد مولانا رومی لوٹے تو وہ روحانی علم سے مالا مال ہوچکے تھے اور ان کی کائنات بدل چکی تھی۔ اگر مولانا روم حضرت شمس تبریز کی نگاہ کے سمندر سے سیراب نہ ہوتے تو اپنی وفات کے ساتھ ہی گمنام ہوگئے ہوتے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی مولانا رومی زندہ ہیں، ہر روز ہزاروں لوگ ان کے مزار پر حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں۔ یہ تبریزی نگاہ کا ہی فیض ہے کہ دنیا بھر میں رومی کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور ان پر تحقیق و تالیف کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دنیاوی علم کتابوں سے حاصل ہوتا ہے لیکن ابدی علم کسی نگاہ کامرہون منت ہوتا ہے۔ اسی لئے اقبال جیسا آفاقی شاعر بار بار نگاہ یا نگہ کا ذکرکرتاہے اور کہتا ہے کہ’’تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں‘‘ گویا اقبال کے نزدیک کچھ امراض کا علاج فقط نگاہ اورنظرہوتی ہے، ان امراض میں کتابی علم کی افراط سے پیدا ہونے والا مرض تشکیک بھی شامل ہے۔

مجھے ہرگزعلم نہیںکہ روحانیت کیا ہوتی ہے اورکیا پاکستان روحانی دور میں داخل ہوچکاہے یا نہیں۔ اسی طرح میرا تجاہل یہ بھی سمجھنےسے عاری ہے کہ بہت جلد پاکستان عالمی سطح پر کیسے ایک قوت بن کر ابھر ےگا لیکن میں اپنے مشاہدے اورتجربے کی بناپر اتنا جانتا ہوںکہ اولیا کرام کے مبارک ہونٹوں سے نکلی بات دیر یا سویر من و عن صحیح ثابت ہوتی ہے۔ محترم سرفراز شاہ صاحب سے میری ملاقات سال بھر میں ایک دوبار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس سال میری ان سے اکلوتی ملاقات مارچ کے اواخر میں ہوئی۔ بیس منٹ کی ملاقات میں ملکی حالات کاذکر آیا تو انہوں نے فرمایا ’’مجھے نواز شریف جیل میں نظر آتا ہے‘‘ یہ بات مارچ کی ہے۔ یقین کیجئے یہ الفاظ سن کر مجھے صدمہ بھی ہوااور حیرت بھی۔ شکر یہ دنیاوی علم کا کہ مجھے اس خبر پر ہرگز یقین نہیں آیا لیکن آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کیا ہوا؟ مزید کچھ نہ ہی لکھوں تو بہتر ہے۔

یہ توہر کوئی جانتا ہے کہ روحانیت کی ابتدا اور انتہا ’’ادب‘‘ ہے جسے اقبال محبت کےقرینوں میں پہلا قرینہ قرار دیتے ہیں۔ میں نے مدینہ منورہ میں کئی عاشقان رسولﷺ اور صوفیا کرام دیکھے جو مدینہ منورہ کی حدودمیں جوتی نہیں پہنتے تھے کہ یہ ادب کا تقاضا ہے۔ اپنی اپنی کیفیت اور اپنے اپنے محسوسات۔ مجھ جیسا گناہگار اور کمزور انسان بھی مدینہ منورہ میں چلتے ہو ئے اس خیال سے خوفزدہ رہتاہے کہ کہیں میرا پائوں ایسی جگہ اور ایسے مقام پر نہ پڑ جائے جہاں حضور اکرمﷺ کامبارک پائوں پڑا ہو۔ نظر کچھ نہیں آتا یہ محض ایک احساس کی بات ہے جسے آپ ادب کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان کے اکثر حکمرانوںکو حرمین شریفین کی زیارت، عمرے اور حج نصیب ہوئے۔ ان کے لئے خانہ کعبہ کے دروازے بھی کھولے گئے اور انہیں حرم نبویﷺ کے اندر جانے کااعزاز بھی حاصل ہوا لیکن آج تک یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ مدینہ منورہ میں ادب کے مار ےننگے پائوں چلتے رہے ہوں۔ ادب کےاس تقاضے کو عمران خان نے نبھایا۔ میراوزیر اعظم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اور نہ ہی اقتدار سے آشنائی کی آرزو ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ’’ادب‘‘میرے رب کی دین اورعطا ہوتی ہے اور بلاوجہ نہیںہوتی۔ میرا رب غفو و رحیم ہے وہ جب چاہے کسی کے گناہ معاف کردے اور جب چاہے کسی کے باطن کی کیفیت بدل دے۔ میری کیا حیثیت کہ میں ادب کے معاملات میں تشکیک کے مرض کو دعوت دوں یا خلوص نیت ناپنے بیٹھ جائوں

البتہ وزیراعظم کو یہ مشورہ دیناخود ان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے جوشیلے کارکنوں کو مخالفین پرگالیوںکی بارش کرنے سے منع کریں کہ یہ بھی ادب کا بنیادی اصول ہے۔ جب سیاست اخلاقی اقدار سے تہی دامن ہوجائے تو وہ چنگیزی روپ دھار لیتی ہے اور اس کی جمہوری روح مجروح ہو جاتی ہے۔

بہرحال یہ یاد رکھیں کہ کتابِ عشق کے پہلے صفحے پر فقط ایک ہی لفظ لکھا ہوا ہے اور وہ لفظ ہے ادب.....!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین