• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں صورتحال قانون نافذ کرنے والوں کے کنٹرول میں ہے

اسلام آباد (عمر چیمہ) یہ 3ستمبر کی شام تھی عبدالرئوف اپنے بھائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کر رہا تھا، وہاں اس نے قبر پر ایک سیاہ جھنڈا لہراتے دیکھا، لیکن خاندان میں سے کسی نے بھی نہیں لگایا تھا، عبدالرئوف نے جیسے ہی وہ سیاہ جھنڈا اکھاڑا اسکے نیچے نصب بارودی سرنگ زوردار دھماکے سے پھٹ گئی اور ساتھ ہی اس نے عبدالرئوف کی جان بھی لے لی۔ اس کا بیٹا جو اپنے والد کے ساتھ تھا، وہ شدید زخمی ہوا، لیکن بچ گیا اور اسپتال میں داخل ہے۔ عبدالرئوف اور عبدالقدو س مستونگ میں تدریسی پیشے سے وابستہ تھے۔ ابتدائی پولیس رپورٹ میں قیاس ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ معاملہ یہ نہ تھا تاہم معمہ اس وقت حل ہو گیا جب ایک سویلین انٹلیجنس ادارے نے عبدالرئوف کے قتل کے چند روز بعد ہی قاتل کو گرفتار کر لیا۔ دونوں بھائیوں کو داعش سے تعلق رکھنےوالوں نے قتل کیا۔فاٹا کے علاقے میں آپریشنز کے بعد سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جنگجو بلوچستان میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔ وزیر داخلہ بلوچستان سلیم کھوسہ نے اس بات سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندرون ملک اور افغانستان سے جنگجو کھسک کر بلاچستان آرہے ہیں لیکن سیکورٹی فورسز انہیں مشکل وقت دے رہی ہے۔ داعش سے متعلق وزیر داخلہ نے اس کی موجودگی کو تسلیم کیا مگر یہ کہا کہ یہ اتنی طاقتور نہیں جتنا کے خیال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کا وجود چھوٹی سی سطح پر ہے، یہ ہلکی پھلکی سرگرمیاں کرتی ہے تاہم اس کی موجودگی اتنے بڑے پیمانے پر نہیں جتنی کہ خیال کی جاتی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صورتحال کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔سیکورٹی حکام کے مطابق فاٹا میں آپریشن کے بعد عسکریت پسند بلوچستان میں اپنے قدم جما رہے ہیں جبکہ داعش اورطالبان دونوں ہی کوئٹہ میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہ دیگر اضلاع میں بھی بٹے ہوئے ہیں۔ داعش کا زیادہ تر وجود بلوچ اکثریتی علاقوں مستونگ، قلات اورطالبان کا پشتون علاقوں چمن، کلہ عبداللہ، پشین، ژوب اور قلعہ سیف اللہ میں اثرورسوخ ہے۔ دونوں دہشت گرد تنظیموں کا ایک ہی ہدف اور وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں اس کے علاوہ داعش کو فرقہ وارانہ عسکریت پسند تنظیموں سےبھی تقویت ملتی ہے جیسے لشکر جھنگوی اور اس کے ذیلی گروہ۔ جن کے اہداف فرقہ واریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ طالبان فاٹا سے بھاگ کر آنے والے عسکریت پسندوں پر مشتمل ہیں۔ سیکورٹی حکام کے مطابق یہ خوف ودہشت پھیلانے کیلئے معروف شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں۔ داعش اورطالبان میں ایک اور قدر مشترک ان کے فنڈنگ کے ذرائع ہیں۔ یہ اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں میں بھی ملوث ہیں۔ افغانستان سے فنڈنگ اس کے علاوہ ہے۔

تازہ ترین