• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پی ٹی آئی‘‘ وعدے، سمارٹ سٹیز، روزگار، چند تجاویز

پی ٹی آئی کے خوبصورت اور خوشبودار وعدوں کی پنڈ میں سب سے پہلا عمدہ وعدہ ہے بےگھروں کو گھر مہیا کرنے کا کہ واقعی متوسط طبقہ سے لے کر زیریں متوسط طبقہ اور غریب آدمی تک’’اپنا گھر‘‘ ہر کسی کا سپنا ہے۔ اردو شاعری کا خاصا حصہ’’گھر‘‘ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ واہ کیا مصرعہ ہے؎’’تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا‘‘افتخار عارف کہتے ہیں؎مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دےمیں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دےنثار ناسک فرماتے ہیں؎دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لوئیںایک وہ پیاری سی لڑکی ایک وہ چھوٹا سا گھر’’میرا پیا گھر آیا‘‘ جیسی قوالی سے لے کر’’میرا گھر میری جنت‘‘ جیسے فلمی نغمے تک گھروں پر اتنا کچھ لکھا گیا کہ بیان سے باہر ہے۔ سیاستدانوں نے بھی اپنے اپنے منشوروں تک بڑے گھر بنائے جن میں بھٹو کا’’روٹی کپڑا مکان‘‘ تو محاورہ بن چکا لیکن زمین پر کچھ نہیں بنا۔ جونیجو نے بھی تین مرلہ سکیم کا ڈریم بیچا اور شہباز شریف نے تو’’آشیانہ‘‘ کے نام پر اسکینڈلز کھڑے کردئیے۔گھر صرف یہاں کا مسئلہ ہی نہیں۔ اہل مغرب بھی گھر کو بہت رومانوی انداز میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں مثلاً"Mid pleasures and places.Though we may Roam,Be it ever so humble,There is no place like home"اور اس محاورہ کا بھی اپنا ہی مزہ اور مطلب ہے"A broken home is the worldʼs greatest wreck".اور گھر کے متعلق اس سے آگے کیا ہوسکتا ہے"Home is where you hang your heart"یا پھر جو ہسپانوی کہتے ہیں" Home is where you go when all other places close"’’پی ٹی آئی‘‘ کو وعدہ نبھانے کے لئے ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض جو پی ایچ ڈی ہیں، نے کچھ مشورے دئیے ہیں کہ کم آمدنی والوں کے لئے کس طرح’’منی اسمارٹ سٹیز‘‘ تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔MSCکے لئے سرمایہ؟ایک ہزار مالیت کے بانڈز کا اجراء5کروڑ منی اسمارٹ ہائوزنگ بانڈز کا ٹارگٹاس سے 50ارب جمع ہوں گے جنہیں گردشی فنڈ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ زمین خرید کر منی سمارٹ سٹیز (MSC) کی تعمیر میں استعمال کیا جائے۔"MSC"میں 5تا 10فیصد گھر ان کو مفت دئیے جائیں جو ایک لاکھ یا زیادہ کے بانڈز رکھتے ہوں۔ یہMSCبانڈز کو بڑھانے میں بھی معاون ہوگا۔5تا 10فیصد گھر قرعہ اندازی کے ذریعہ MSC ممبران میں تقسیم کئے جائیں اور باقی تمام گھر 25فیصد منافع سے کم پر فروخت کئے جائیں۔ MSCکے لئے قومی سطح پر تنظیم سازی۔ معروف بلڈرز و دیگر بلڈنگ اداروں کا کنسورشیم بنائو۔کنسورشیم بااختیار ہو، بلڈرز، انجینئرز، آرکیٹیکٹس وغیرہ کو جدید تعمیرات اسمارٹ سٹیز کا تجربہ ہو۔ یہی سارے کام کو مانیٹر کریں۔ ممبران کو خود بھی اس میں سرمایہ کاری کی اجازت ہو۔MSCکے لئے جگہ کا انتخاب اور پالیسیز۔حکومت ان مقامات کی نشاندہی کرے جو کسی شہر، موٹروے یا ہائی ویز کے اطراف میں ہوں۔گھروں کی تعمیر جدید طرز پر ہو، قابل تجدید انرجی، جدید مٹیرئلز، پانی کی بچت، تعلیم، صحت، کمیونٹی سنٹرز، پارکس، قبرستان وغیرہ پر توجہ ۔زمین کی خریداری’’لینڈ ایکوزیشن اتھارٹی‘‘ کی زیر نگرانی ہو جسے حکومت اور کنسورشیم مانیٹر کرے۔ایگرو فاریسٹری، پولٹری، مویشی، زرعی فارمز کے لئے بھی زمین مختص ہو۔انڈسٹریل پارکس بھی بنائے جائیں۔سی پیک ہائوزنگ انڈسٹری کے کاروبار میں شراکت دار۔چائینز ، صنعت کاروں اور بلڈرز کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ اس کا حصہ بنیں۔بڑے شہروں میں پراپرٹی کی قیمتوں کو کینڈے میں رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل کام کرنا ہوں گے۔پراپرٹی کی سرکاری قیمت کو بڑھا کر مارکیٹ کے برابر لانا۔جو پراپرٹی 3تا 5سال بیکار رہے اس پر ٹیکس کی شرح بڑھانا۔تعمیرات کے ساتھ سینکڑوں صنعتیں وابستہ ہیں۔ اس کے ا ٹھتے ہی ہر سیکٹر میں اٹھان پیدا ہوگی، روزگار پھیلے گا۔ملک گیر آڈٹ کرایا جائے کہ کس کس زمین کا کون مالک ہے۔ملک میں لینڈ آڈٹ سٹیلائٹ کے ذریعہ کرائیں، املاک مارک ہوں، مالکان کا تعین ہو جس سے زمین کے لاتعداد جھگڑے بھی ختم ہوں گے، عدالتوں پر دبائو بھی کم ہوگا۔قارئین!یہ حرف آخر ہرگز نہیں۔ فوڈ فارتھاٹ ہے۔ "MSC" اسکیم کی سمری کی سمری کی سمری کی سمری سمجھیں کہ کالم میں اس سے زیادہ ممکن نہیں لیکن خدارا! اعلانات کی دنیا سے نکل کر اقدامات کی حقیقی دنیا کا رخ کریں کہ خالی خولی اعلانات روٹی کپڑا مکان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

تازہ ترین