• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی سطح پر کراچی میں صحت کی سہولتیں ابتری کا شکار

عام انتخاب 2018ء کے نتیجے میں کراچی، پاکستان تحریک انصاف کا ایک بڑا سیاسی گڑھ بن کر اُبھرا ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی اور کراچی کی قیادت، اس کامیابی پر سکون سے بیٹھنے کے بجائے، کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدگی سے کام کرنا چاہتی ہے۔ اپنے وعدوں کے مطابق تحریک انصاف، کراچی کے عوام کے مسائل کم کرنا چاہتی ہے اور یہاں کے عوام کو درپیش دیرینا مسائل مستقبل بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے۔

پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح، کراچی کو جن بڑے، اہم اور سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے، ان میں صحت کی بہتر سہولیات کی عدم فراہمی بھی شامل ہے۔

قومی اسمبلی حلقہ این اے -247کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار آفتاب صدیقی کو بھی شہر میں صحت کی سہولتیں کی ابتری کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مردم شماری میں اس شہر کی آبادی1کروڑ 66 لاکھ دِکھائی گئی ہے، جبکہ اس شہر کی حقیقی آبادی سوا دو کروڑ یا اس سے بھی زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس شہر کو جو سہولتیں فراہم کریں گے، وہ ہر صورت کم ہی پڑیں گی‘۔ آفتاب صدیقی نے صورتحال واضح کرتے ہوئے بتایا۔ ’تاہم، مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، کیونکہ یہاں تو1کروڑ 66لاکھ کی آبادی کے لیے بھی مناسب وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شہر کے ہر ہسپتال میں صحت کی ناکافی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انتہائی شرم ناک صورتحال نظر آتی ہے‘۔ آفتاب صدیقی نے مزید بتایا۔

آفتاب صدیقی کہتے ہیں، ’کراچی شہر 18ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شہر میں کم از کم 18 بڑے اور معیاری سرکاری ہسپتال ہونے چاہئیں، تب جاکر ہی اس شہر میں عوام کو صحت کی کچھ بہتر سہولتیں دستیاب ہوسکیں گی‘۔ تاہم زمینی حقائق انتہائی غیراطمینان بخش ہیں۔

شہر کے اولڈ سٹی ایریا میں واقع ایک بڑے سرکاری ہسپتال’ڈاکٹر رُتھ فاؤ ہسپتال‘(پرانا نام سول ہسپتال) میں سہولیات سے لے کر انفرااسٹرکچر کی صورتحال کافی خراب ہے۔ یہ ہسپتال آفتاب صدیقی کے حلقہ این اے-247میںآتا ہے۔ ’میں اس بات سے اچھی طرح باخبر ہوں کہ سول ہسپتال کی حالت بہت خراب ہے۔ میں خود ہسپتال کا دورہ کرچکاہوں۔ مجھے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد ایمرجنسی وارڈ تک پہنچنے میں10منٹ لگ گئے تھے۔ جس تعداد میں مریض وہاں آتے ہیں، یہ ہسپتال ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ ہسپتال کے باہر کی حالت بھی افسوسناک ہے۔ ہر طرف قبضہ ہوچکا ہے اور صوبائی و شہری حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ عام لوگوں کے آنے جانے کی بات تو بعد میں آتی ہے، ایک ایمبولنس کا ہسپتال تک پہنچنا بھی محال بن جاتا ہے‘۔ آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اس مسئلے کو ہر سطح پر اُٹھائے گی اور عوام کو ہر ممکن حد تک صحت کی بہتر سہولتیں کی فراہمی کے لیے کردار ادا کرے گی۔ ’وزیراعظم عمران خان، سندھ حکومت کو پہلے ہی پیشکش کرچکے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ان کو جہاں بھی ضرورت پڑی وفاقی حکومت ان کی مدد کرے گی۔ اس کے علاوہ سندھ اسمبلی میں ہمارے اپنے اراکین کی تعداد29ہے۔ امید ہے کہ ضمنی انتخاب میں شہزاد قریشی جیت جائیں گے تو سندھ اسمبلی میں ہماری عددی قوت بڑھ کر 30ہوجائے گی۔ ہم سندھ اسمبلی کے فلور پر بھی اس مسئلے کو اُٹھائیں گے‘۔

آفتاب صدیقی اس مسئلے پر صرف آواز ہی نہیں اُٹھا رہے بلکہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ، اپنے حلقہ کے عوام کو ہر ممکن حد تک ریلیف فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کررہے ہیں۔

’صفائی ستھرائی، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج نظام میں بہتری، یہ ساری چیزیں لوگوں کی صحت پر اثر ڈالتی ہیں۔ اگر آپ کے علاقے میں صفائی ستھرائی کے اچھے انتظامات ہونگے تو آپ کی صحت بھی بہتر رہے گی۔ سیوریج کا نظام بہتر ہوگا، گٹر نہیں اُبلیں گے تو وبائی امراض نہیں پھیلیں گے۔ اگر عوام کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہوگا تو ڈائریا اور ہیضہ جیسی بیماریوں سے بھی حفاظت ہوگی۔ صاف پانی سندھ کے عوام کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سندھ کے 70فیصد سے زائد عوام کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ میں اس سلسلے میں اپنے طور پر جو کچھ کرسکتا ہوں، کررہا ہوں۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے حلقے کے پسماندہ علاقوں میں جاکر لوگوں کو پینے کا صاف پانی روزانہ کی بنیاد پر فراہم کررہا ہوں۔ ہم روزانہ مختلف علاقوں میں 20ہزار گیلن پینے کا صاف پانی دے رہے ہیں۔ کم از کم عارضی طور پر اس طرح ہم نے لوگوں کا یہ مسئلہ حل کیا ہوا ہے لیکن اس کا مستقل حل نکالنے کے لیے ہم 1کروڑ گیلن یومیہ پانی کا Desalinationپلانٹ لگانے پر کام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ڈی ایچ اے کی انتظامیہ اور نجی شعبے کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے پر جلد سے جلد کام شروع ہو اور اسے جلد مکمل بھی کرلیا جائے۔ کیونکہ K4منصوبے پر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مزید وقت لگےگا۔ حکمرانوں نے K4منصوبے کی فزیبلیٹی ہی ٹھیک سے نہیں بنائی تھی، اس میں کئی خامیاں تھیں، جنھیں اب درست کیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے اس منصوبے سے 2022ء سے پہلے کراچی کے شہریوں کو پانی ملنا مشکل ہے‘۔ Desalinationدنیا بھر میں ایک جانی مانی ٹیکنالوجی ہے، جس کے تحت سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے اسے پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

جہاں تک صفائی ستھرائی کا تعلق ہے، آفتاب صدیقی سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ چاہے وہ صوبائی حکومت ہو یا بلدیاتی حکومت، صفائی ستھرائی کے لیے اتنے زیادہ وسائل درکار نہیں ہوتے کہ شہر کی صفائی نہ کی جاسکے۔’ہم نے اپنے محدود وسائل سے اپنے حلقے کے کئی علاقوں کو صاف کیا ہے، جہاں برسوں سے کچرا نہیں اُٹھایا گیا تھا۔ اب آپ وہاں جاکر دیکھیں، صفائی ستھرائی کی صورتحال آپ کو پہلے سے بہت بہتر نظر آئے گی۔ اگر میں اپنے چند دوستوں اور خیر خواہوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکتا ہوں تو حکومتیں کیوں نہیں کرسکتیں؟ اس کے لیے بس نیت کا ہونا ضروری ہے۔‘ آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے چین کی کمپنی کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا ہوا ہے، تاہم اس میں بھی شفافیت کی کمی ہے۔ ’چینی کمپنی کو فی ٹن کچرا اٹھانے کے 30ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، تاہم کسی کو یہ نہیں پتہ کہ کچرے کا وزن کہاں کیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ، کچرا اُٹھا نے کے بعد اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے جگہیں مختص نہیں کی گئیں۔ ڈی ایچ اے اتنا بڑا ہے، لیکن اس میں یا اس کے آس پاس ایک بھی ڈمپنگ سائٹ نہیں ہے‘۔

لوگوں میں صحت کی اہمیت اور آگہی کے لیے آفتاب صدیقی ’خون عطیہ کرنے کی مہم‘ کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ آفتاب صدیقی اس اہم معاملے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر میں صاف و شفاف اور انفیکشن سے پاک خون کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ’اس شہر میں ماسوائے ایک دو اداروں کے آپ کو کہیں خون دستیاب نہیں ہوتا۔ سندھ حکومت نے اس اہم مسئلے پر کوئی کام نہیں کیا، سندھ حکومت نے ایسی کوئی بڑی لیبارٹری قائم نہیں کی، جہاں لوگوں کو پتہ ہو کہ وہ جائیں گے تو ان کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اگر سندھ حکومت کرنا چاہے تو یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے لیکن جب کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو پھر کوئی کیا کہہ سکتا ہے‘۔

آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے کے کیمپوں کے ذریعے نوجوانوں اور بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ سماجی اور معاشرتی کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ’بلڈ ڈونرز کا بھی اس میں فائدہ ہوتا ہے کہ انھیں بھی ساری رپورٹ مل جاتی ہے کہ ان کے خون کی کیا صورتحال ہے، ان کے خون میں کوئی مسئلہ تو نہیں، انھیں کوئی بیماری تو لاحق نہیں، وغیرہ وغیرہ‘۔

آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ وہ یہ کام اس لیے نہیں کررہے کہ وہ انتخابات میں کھڑے ہورہے ہیں اور انھیں لوگوں سےووٹ چاہیے۔ ’میں بلڈ ڈونیشن کیمپس اور دیگر کارِ خیر پہلے سے کرتا آرہا ہوں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھوں گا‘۔

تازہ ترین