• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیفنس لاہور کے پہلو میں آباد ایک بستی میں جب میں داخل ہوا  تو بے اختیار جمہوریت کا جگہ جگہ سے شکستہ اور تجاوزات سے کٹا پھٹا ڈھانچہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا  مگر جوں جوں آگے بڑھا  تو دل خوشیوں سے سرشار ہوتا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایک نظم کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھے تھے جن کے چہرے شوقِ فراواں سے تمتا رہے تھے۔ میں نے ایک ادھیڑ عمر شخص سے شادمانیٴ دل کی وجہ پوچھی  تو اُس نے بتایا کہ آج دس پندرہ برسوں کے بعد ہماری سوسائٹی نے اپنی مینیجنگ کمیٹی کا صحیح معنوں میں جمہوری طریقے سے انتخاب کیا ہے اور عہدے داران کچھ ہی دیر بعد حلف اُٹھانے والے ہیں۔ میں نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا کہ کوآپریٹو ہاوٴسنگ سوسائٹیز کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہر سوسائٹی میں انتخابات سالانہ بنیادوں پر کرائے جاتے ہیں  تو آپ کی اسمال انڈسٹریز ورکر سوسائٹی کے انتخابات میں ایسی کیا بات ہے کہ آپ لوگوں کے چہرے پھولوں کے ان تختوں کے طرح کھلے ہوئے ہیں جن کے رنگ اور خوشبو سے اِن دنوں پورا لاہور مہکا ہوا ہے۔ اُس نے بتایا کہ ہم نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں بڑے زخم کھائے ہیں کہ جعلی انتخابات کے نام پر بے ضمیر اور بددیانت افراد سیاہ و سپید کے مالک بنے رہے اور ایک ایک پلاٹ دس دس آدمیوں کو فروخت کرنے کا کاروبار ایک ایسی گراوٹ تک پہنچ گیا کہ سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ مافیا جو میجر (ر) ذوالفقار کی سرکردگی میں تباہی کا ذمے دار تھا  اُسے چھ سال پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔عدالت ِعظمیٰ کے حکم سے اب صحیح معنوں میں حقیقی انتخابات ہوئے ہیں  اِن میں میاں سعید احمد عثمانی صدر منتخب کیے گئے ہیں جو اپنی عمدہ کارکردگی اور اچھی شہرت کی بدولت سالہا سال سے سمال انڈسٹریز کے محکمے میں ورکرز یونین کے صدر منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
میں عزیزم عبدالمالک غازی کے ساتھ حلف برداری کا منظر دیکھنے اس بستی میں آیا تھا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اِس علاقے سے مسلم لیگ نون کے ایم پی اے میاں نصیر احمد اسٹیج پر آ گئے اور اُنہوں نے منتخب عہدے داروں سے حلف لیا جو مختصر ہونے کے باوجود بہت جامع تھا۔ منتخب صدر جناب عثمانی جن کے چہرے سے قائدانہ اعتماد چھلک رہا تھا  اُن کے جذبات کا ایک خوبصورت اظہار یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنے مدِ مقابل امیدوار جناب تنویر ڈوگر کو مبارک باد پیش کی کہ وہ جمہوری عمل میں حصہ لینے اور شائستگی سے اختلاف رائے کی بنیادیں مضبوط کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اِس عظیم خدمت کے پیشِ نظر میں اُن کی مشاورت سے سوسائٹی کے حالات بہتر بنانے کے لیے پوری تندہی سے کام کروں گا۔ اُنہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ماضی میں اختیارات کے مالک بددیانت افراد ورکروں کی اِس سوسائٹی کے مفادات پر ڈاکہ ڈالتے اور ترقی کی راہیں مسدود کرتے رہے  جبکہ ہماری ٹیم آنے والے چند مہینوں کے اندر خوشگوار تبدیلی لانے کا ایک قابلِ عمل پروگرام ترتیب دے چکی ہے  سٹریٹ لائٹس کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے جمع کرائے جا رہے ہیں  جبکہ لمز (LUMS) اور ڈی ایچ اے سے حاصل ہونے والی رقوم سوسائٹی کے ترقیاتی منصوبوں اور ارکان کے جائز واجبات کی ادائیگی پر خرچ ہوں گی۔ اِسی طرح کنٹونمنٹ بورڈ سے مذاکرات کے ذریعے سیوریج اور صاف پانی کے انتظامات کو جلد سے جلد آخری شکل دینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اُن کے سپاس نامے کا یہ حصہ میرے لیے حد درجہ فرحت بخش تھا کہ اُن کی منتخب ٹیم کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کے عناصر موجود ہیں اور اُنہیں دین دار لوگوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ میں نے دیکھا کہ اِس اجتماع میں پیپلز پارٹی کے میاں رمضان اور عارف صاحب  تحریکِ انصاف کے چوہدری محمد اصغر اور تبلیغی جماعت کے ضیاء الحسن تشریف فرما تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ جمہوریت نچلی سطح پر بھی ہمارے وجود کے اندر داخل ہوتی جا رہی ہے جبکہ اِس کی نمود اعلیٰ سطح پر ایک نئے انداز سے جلوہ آرا ہے۔
مہمانِ خصوصی جناب نصیر احمد نے مسائل حل کرنے میں بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے ایک ایسی بات کہی جس پر میں چونک اُٹھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آنے والے انتخابات میں کسی دو نمبر شخص کو ووٹ نہ دیں  چاہے اُس کا تعلق میری اپنی جماعت ہی سے کیوں نہ ہو۔ میں نے اُن سے پوچھا کیا آپ سچ مچ اِس عظیم سیاسی عقیدے پر یقین رکھتے اور اپنی جماعت کے اندر دیانت داروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو میں اپنے خلاف بھی جہاد کروں گا اور اُن کے خلاف بھی جو اپنی بداعمالیوں سے سیاست کو بدنام کر رہے ہیں۔
اِس اجتماع کے مجموعی طرزِ عمل سے میرے اِس خیال کو تقویت پہنچی کہ ایک صحت مند جمہوری طرزِ عمل ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے اور ماضی کی سیاسی دشمنیاں دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ نون کے قائد جناب نواز شریف نے ایک نجی ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے ایک گہرے وژن اور کمال درجے کی فکری بلندی کا مظاہرہ کیا۔ بڑے اعتماد سے کہا کہ اگر میری پارٹی اکثریت میں آگئی اور مجھے ایوانِ میں وزیرِ اعظم چُن لیا گیا تو مجھے جناب زرداری سے حلف لینے میں کوئی تامل نہیں ہو گا  کیونکہ وہ منتخب صدرِ مملکت ہیں۔ بڑی شگفتگی سے اور قدرے مسکراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جناب عمران خاں جو اپوزیشن کی اپوزیشن کر رہے ہیں  ہم اُن کی کامیابی کا بھی خیر مقدم کریں گے۔ ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب قمر زمان کائرہ نے اس حُسنِ اظہار کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا  جس کے بارے میں ہمارے بعض تجزیہ نگاروں نے ’درپردہ سودا بازی‘ کے افسانے تخلیق کر لیے تھے۔
آج سے کوئی پانچ سال پہلے تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے دانش ور نے ایک سیمینار میں کہا تھا کہ امریکی قیادت اور حکومت کی ہمالیہ جیسی غلط پالیسیوں کے باوجود امریکی معاشرہ خلفشار اور زوال سے مستقبل قریب میں دوچار نہیں ہوگا  کیونکہ وہاں کمیونٹی بڑی حد تک بااختیار اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ کمیونٹی اپنے فرد کی بنیادی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھتی اور اس کی شخصیت کی نشوونما کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ اِسی طرح شہری بھی حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہنے کے بجائے  اپنی کمیونٹی کی ترقی  خوشحالی اور مضبوطی میں بھر پور حصہ لیتے اور اسے ایک امتیازی شان دینے کی جدوجہد کرتے اور جمہوری قدروں کی پاسداری کا زبردست خیال رکھتے ہیں۔ مجھے سمال انڈسٹریز ورکرز سوسائٹی کی حلفِ وفاداری سے یقین ہونے لگا ہے کہ اگر الفاظ عملی جامہ بھی پہن جائیں  تو پاکستان میں جمہوری بنیادیں مستحکم ہوں گی اور ہماری زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بنتی جائیں گی۔جمہوریت ایک طرزِ حکومت اور ایک مستقل طرزِ حیات ہے۔ اِ س لیے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اِسے رواج دینے اور اِس کی بنیاد پر انسانی رویوں کو تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام نے معاشرت اور تہذیب و تمدن کی بقا اور فروغ کے لیے ’مشاورت‘ کو بنیادی قدر قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی امور ہوں یا سماجی تعلقات یا حکومت کے معاملات  اُن کی انجام دہی کے لیے مشاورت کا چلن عام اور اس کا نظام بہت مستحکم ہونا چاہیے۔ اِس کے علاوہ کشادہ سڑکوں  خوبصورت باغات  عمدہ لائبریری  نظر افروز کلب اور صحت کی قابلِ اعتماد سہولتوں سے آراستہ بستیاں شہریوں میں اچھے اوصاف اور آگے بڑھنے کی اُمنگ پیدا کرنے میں زبردست کردار ادا کرتی ہیں  اِس لیے سیاست دانوں پر لازم آتا ہے کہ وہ کمیونٹی کو زیادہ سے زیادہ مربوط اور بااختیار بنانے میں فعال کردار ادا کریں کہ بستیوں کا صحت مند اور جمہوری ماحول ہی معاشرے کو توانائی  خود اعتمادی اور استحکام عطا کرتا ہے۔
تازہ ترین