• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے آس پاس ہوا کا دبائو بڑھ رہا ہے۔

طوفان وجود میں آرہا ہے۔

پہلے بھی ایسی سرگوشیاں سنتا رہا ہوں۔ گھوڑوں کی ٹاپیں تو صدیوں سے مجھے بے خواب کرتی رہی ہیں۔

اب بلائیں بے چین ہورہی ہیں۔

ہم تو عمران۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہنی مون۔ اظہار رائے کے رومانس۔ احتساب کے یکطرفہ ہونے۔ کرپشن کے فلک بوسوں کے مسمار ہونے کی کشاکش میں محو گریہ ہیں۔

.................

یہ تو ممکن ہی نہیں کہ را۔ موساد۔ سی آئی اے نے اپنی بساط لپیٹ لی ہو اور وہ خاموشی سے بیٹھی ہوں یا پاکستان ان کے دائرۂ کار سے نکل گیا ہو۔ہم اب بھی ان کی شکارگاہ ہیں۔ شکار کے طریقے بدل گئے ہیں۔ دانشوروں کی نئی نئی نسلیں تیار ہوتی رہتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کی کلوننگ بھی کی جاتی ہے۔ پاکستان اب بھی تمام سپر طاقتوں کے لئے اہم اور حساس ترین مقام ہے۔ امریکہ ہو یا روس۔ چین ہو یا برطانیہ۔ سعودی عرب ہو یا ایران۔ یورپی یونین بھی شطرنج کی عالمی بازیوں میں کسی سے پیچھے نہیںہے۔ ہمارا محلّ وقوع جو معیشت اور سفارت کاری کے لئے بہت ہی منفعت بخش ہوسکتا ہے۔ اب ہمارے لئے خطرناک بوجھ بن چکا ہے۔ حکمرانوں کی نسلیں چاہے وردی میں آتی رہیں یا کرتے شلوار میں۔ انہوں نے اس محلّ وقوع کو مستحکم کرنے کے لئے بنیادی اقدامات نہیں کیے۔ وقتی طور پر فائدے اٹھائے اور وہ ساری غفلتیں اور کوتاہیاں اکٹھی ہوکر راکھشس بن گئی ہیں۔

ہماری خفیہ ایجنسیاں تو بہت کچھ جانتی ہیں کہ غیر ملکی انٹیلی جنس نیٹ ورک کس کس سے رابطے میں ہیں۔ انفرادی طور پر کون کیا کردار ادا کررہا ہے۔ این جی اوز کیا کھیل کھیل رہی ہیں۔ ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ مجھے اور آپ کو بات کرتے وقت۔ لکھنے کے دوران۔ میٹنگیں کرتے کچھ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ میں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے حرف کی حرمت کے لئے اور اس عظیم وطن کی بقا کے لئے بہت سے درّوں سے گزر رہا ہوں۔ دلدلوں میں اٹکا ہوں۔بند گلیوں میں مقید ہوا ہوں۔ لوہے کی دیواروں سے ٹکرایا ہوں۔ پاکستان کی اہمیت اور حساسیت مجھ پر اور زیادہ واضح ہوتی رہی ہے۔ ہمیں تاریخ نے یہ جغرافیائی حیثیت عالمی سطح پر ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے دی تھی۔ یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں نے اس حیثیت کا وہ ادراک نہیں کیا جو اس کا حق تھا۔ یہ ادراک انہیں بھی ایک ممتاز مقام دے سکتا تھا اور اس ملک کو بھی۔

حکمرانوں کو تو ان خطائوں کی سزا ملتی رہی ہے۔ لیکن ملّت جو گناہ کرتی رہی ہے ۔ فطرت اس سے اغماض نہیں کرسکتی۔

اس وقت سازشیں بین الاقوامی، علاقائی سب زوروں پر ہیں۔ خفیہ طاقتیں اپنے اپنے مشن کو جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہیں۔ اب ہم میں سے ہر ایک کو زبان سے کوئی لفظ نکالنے۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا ہے کہ ہم کسی کے مشن کی نادانستہ تکمیل میں شریک تو نہیں ہورہے ہیں۔ بہت ہی نازک مقام آیا ہوا ہے۔ میں یہ محاورتاً نہیں کہہ رہاہوں۔ نہ ہی یہ کوئی بہت غیر معمولی اعلیٰ دانش کا کرشمہ ہے۔ یہ تاریخ کی گواہی ہے۔ہم چالیس برس سے جس راستے پر چل رہے ہیں وہ آگ اور خون کا راستہ ہے۔ اس نے ہمیں ایک فتنہ پرور ریاست کی شناخت دی ہے۔ یہ بینکوں سے پوچھ لیں ۔ آپ خود بھی ان مراحل سے گزر رہے ہوں گے۔ اپنے پیسے کے لین دین میں۔ اکائونٹ کھلوانے بند کروانے میں کتنے کاغذوں کا پلندہ بھرنا پڑتا ہے۔ آپ سے کیا کیا پوچھا جاتا ہے۔ ساری قوموں کو تو اس سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ ان فارموں پر غور کریں۔ ان کی روشنی میں ہی ان سوالات اور شرائط کا ایکسرے کریں۔ جو آپ کی حکومت سے آئی ایم ایف والے پوچھ رہے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) والے جو وضاحتیں مانگ رہے ہیں ۔ ہماری کج ادائیوں نے یہ دن دکھائے ہیں۔ یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دَور سے شروع ہوتا ہے۔ اس حکمران کی پالیسیوں نے ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ بہت ہی ٹھنڈے دل سے سوچنے کا وقت آگیا ہے کہ ان پالیسیوں نے ملک کو کیا دیا اور معاشرے سے کیا کیا چھین لیا۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کی پہچان باہر کیا ہوگئی ہے۔ اگر FATFکا وفد ہماری کاوشوں سے مطمئن نہیں ہے ۔ ہمیں گرے لسٹ سے باہر نکالنے کو تیار نہیں ہے۔ جن گمراہیوں، بے قاعدگیوں اور غلط کاریوں کی وہ نشاندہی کررہے ہیں ۔ کیا ہم ان میں ملوث نہیں ہیں اور کیا یہ برائیاں خود ہمارے معاشرے کے لئے زہر قاتل ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ ہمیں بین الاقوامی شرائط تسلیم کرنے سے کہیں زیادہ اپنے بچوں کو آگ اور خون کے کھیل سے بچانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمیں یہ خود طے نہیں کرنا ہے کہ پاکستان کا معاشرہ کیسا ہونا چاہئے۔ ہم آئندہ دس پندرہ برسوں بعد کس قسم کا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ہمیں کرنا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ کے دوسری عالمی اداروں کے قوانین کے مطابق اپنے تمام ادارے چلانے ہیں کہ نہیں۔ ہم دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے ۔

یہ سب کچھ تعین کرتے وقت ہمارے ذہن میں یہ بھی رہنا چاہئے کہ ’’را‘‘ جس ملک کی خفیہ ایجنسی ہے۔ اس نے پاکستان کے وجود کو قبول نہیں کیا۔ وہ اسے تباہ کرنے کے در پے ہے۔ جبکہ سی آئی اے جس سپر طاقت کی ایجنسی ہے وہ پاکستان کو نہ ہی کامیاب ملک دیکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی قطعی ناکام۔ کیونکہ قطعی ناکام پاکستان بھی اس خطّے میں امریکی مفادات کے لئے تباہ کن ہے۔ میں نے کئی تھنک ٹینکوں کی رپورٹیں پڑھی ہیں۔ جن کا حتمی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان نہ تو کبھی عالمی معیار کے مطابق کامیاب ملک بنے گااور نہ ہی وہ ناکام ریاست ہوگا۔ وہ اس کے درمیان ہی ہنگاموں میں گھرا رہے گا۔

ہماری بربادیوں کے مشورے عالمی دارُالحکومتوں میں ہوتے رہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم خود کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں۔ کیا ہم نے اپنے مفادات کا تعین کیا ہے۔ جس پر سب متفق ہوں۔ سارے ادارے۔ ساری سیاسی جماعتیں، میڈیا، یونیورسٹیاں اور سب ان مفادات کے حصول کے لئے دن رات کوشش کریں۔

غیر ملکی طاقتوں کے تو یہ مفاد میں ہے کہ پاکستان سیاسی، اقتصادی، اخلاقی بحرانوں میں گھرا رہے ۔ ایک دوسرے کا احترام ختم ہوجائے۔ فرقے آپس میں برسرپیکار رہیں۔ ادارے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے رہیں۔ غدّاری کے سرٹیفکیٹ تقسیم ہوتے رہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ اس میں وہی قومیں آگے بڑھیں گی جہاں اچھے منیجرز ہوں۔ سخت ایڈمنسٹریٹر ۔ قانون کی حکمرانی۔

بہت مشکل اورکٹھن حالات ارد گرد منڈلارہے ہیں۔ مقابلہ ایک قوم کی حیثیت سے ہوسکتا ہے۔ ایک طرف کھڑے ہوکر صرف تماشائی، صرف بقراط بننے سے نہیں۔ سب کے جملے۔ سب کی کارروائیاں۔ کوششیں اگر ایک منزل کے حصول کے لئے ہوں گی تو ایک ڈیڑھ برس بعد روشنی کی کرن کی توقع کریں۔

تازہ ترین