• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1990ء کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں جو سب سے اہم بات سامنے آئی ہے، وہ ہے ملٹری اور سول بیوروکریسی کی جمہوریت کے خلاف مشترکہ سازشیں ۔ سپریم کورٹ نے جہاں فوجی جرنیلوں کے”غیر آئینی“ رویوں کی نشاندہی کی ہے وہاں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے جانبدارانہ کردار پر بھی شدید نکتہ چینی کی ہے جو ہماری قومی سیاسی تاریخ میں ”سول بیوروکریسی“ کے اس جمہوریت کش اور غیر آئینی کردار کا غماز ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی سیاسی جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں کی شکل میں شروع ہو گیا تھا جس کی وجہ سے یہاں جمہوری عمل بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا اور ملک کو بے پناہ صدمات کا شکار ہونا پڑا اور وہ ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہا۔ ہم آج تک اپنے تمام سیاسی اور قومی مسائل کا ذمہ دار یہاں کے طالع آزما فوجی ڈکٹیٹروں کو سمجھتے رہے ہیں لیکن اپنی قومی تاریخ کے بغور مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی کہیں زیادہ نقصان ہمیں ہماری اس سول بیوروکریسی کی وجہ سے اٹھانا پڑا جنہوں نے آئین شکنی میں زیادہ بڑا اور بنیادی کردار ادا کیا اور فوجی طالع آزماؤں کی ہوس اقتدار کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نت نئی سازشوں کا بازار گرم کئے رکھا، ان کو ترغیبات اور آئین شکنی کے اس راستے پر چلنے کے لئے گائیڈ لائن فراہم کرتے رہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بعض اوقات وہ فوجی طالع آزماؤں کے غیر آئینی طریقوں سے اقتدار تک پہنچنے میں ایک ”محرک“ اور ”ہراول دستے“ کے طور پر کام کرتے رہے کیونکہ ”گھر کے بھیدی“ ہونے کی حیثیت سے وہ اقتدار کے اسرار و رموز، آئینی موشگافیوں اور سیاستدانوں کی کمزوریوں سے زیادہ واقف ہوتے تھے۔ پاکستان کی ابتدائی سیاسی تاریخ کے تناظر میں سیاستدانوں کی یہ کمزوریاں، امور حکومت چلانے کے سلسلے میں ان کی ناتجربہ کاری کے باعث ایک فطری امر تھیں جو جمہوری عمل کے رواں دواں رہنے کی صورت میں یقینا بہتری کی طرف گامزن ہو جاتیں لیکن انگریزوں کے دور میں بھرتی ہونے والے تجربہ کار بیورو کریٹس نے ناتجربہ کار سیاستدانوں اور طالع آزما فوجی ڈکٹیٹروں کو ایسے ایسے سبز باغ دکھائے کہ نوزائیدہ جمہوریت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا اور ڈکٹیٹروں کی آڑ میں وہ اقتدار کے اصل مالک بن بیٹھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسے تمام کرداروں کو نوجوان نسل کے سامنے پیش کیا جائے جنہوں نے آمریت کی پرورش کی اور آمروں کی نقب زنی میں مخبروں کا کردار ادا کیا، یہ فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی بڑے مجرم ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار غلام اسحاق خان کا ہے جس کا ذکر سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں کیا ہے۔ ایک پٹواری سے اپنی سرکاری نوکری شروع کرنے والے اس”پراسرار شخص نے غلام محمد اور اسکندر مرزا کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے خود کو صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچا دیا جو بذات خود ایک حیران کن واقعہ ہے۔ 71ء میں پاکستان دولخت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان سے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کی منتقلی کی تصاویر میں غلام اسحاق خان پیش پیش نظر آتے ہیں۔ 77ء میں پاکستان کو ضیاء الحق کی ہولناک آمریت کے حوالے کرنے میں غلام اسحاق خان نے جو کردار ادا کیا اس کے صلے میں ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں ان کے لئے”سیکرٹری جنرل“ کا خصوصی عہدہ تخلیق کیا گیا۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور استبداد میں وہ ان کے دست راست کی حیثیت سے ہر جمہوریت کش اقدام میں ان کے ساتھی رہے۔ مجلس شوریٰ سینٹ کے چیئرمین ہونے کی وجہ سے ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد وہ بظاہر ایک سویلین صدر تھے لیکن جمہوریت دشمنی میں وہ ضیاء الحق سے بھی کئی قدم آگے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کی آئینی تلوار سے ایک مرتبہ جبکہ اس سویلین ڈکٹیٹر نے پانچ سال سے بھی کم عرصے میں دو منتخب حکومتوں کا سرقلم کیا۔ ان کا پانچ سالہ دور صدارت،جوڑ توڑ، ریشہ دوانیوں اور محلاتی سازشوں کا وہ تاریک ترین دور ہے جس نے پاکستان کو فوجی آمریت سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا کیونکہ کہنے کو یہ جمہوری دور تھا۔ غلام اسحاق خان کی”لڑاؤ اور حکومت کرو“کی پالیسیوں نے جس افراتفری اور ”دھینگا مشتی“ کو جنم دیا اس نے عوام کو جمہوریت سے ہی بیزار کر دیا اگرچہ وہ بڑے بے وقار ہو کر قصر صدارت سے رخصت ہوئے لیکن اپنے پیچھے محلاتی سازشوں کی اتنی بری روایت چھوڑ گئے کہ ان کے بعد آنے والا صدر بھی اس سے دامن نہ بچا سکا جس کے نتیجے میں ملک جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے شکنجے میں آ گیا۔
غلام اسحاق خان کے دور میں آئی ایس آئی نے پیپلزپارٹی مخالف اتحاد آئی جے آئی بنوایا اور الیکشنوں میں شدید نوعیت کی دھاندلیاں کیں۔ وہ اس لحاظ سے منفرد شخصیت تھے کہ نہ وہ بینظیر کے ساتھ چل سکے اور نہ ہی میاں نواز شریف کے ساتھ۔ میں نے مئی1992ء میں ان کے دور حکومت کے بارے میں ”بدترین دور“ کے عنوان سے ایک قطعہ لکھا تھا جو میری کتاب”میں باغی ہوں“ میں موجود ہے۔
ملائیت، مارشل لاء، بے نمو جمہوریت
یہ زمیں ظلمات میں لپٹا ہوا ہے ایک طاق
سازشوں کا یہ گھناؤنا دور ایسا جس کی ہے
ابتدا غلام محمد، انتہا غلام اسحاق
معروف صحافی اظہر سہیل مرحوم اپنی کتاب ”ایجنسیوں کی حکومت“ میں لکھتے ہیں۔ مئی1992ء میں”نواز شریف حکومت کے وزیر تجارت ملک محمد نعیم نے ایک بار کم و بیش تین اور اخبار نویسوں کی موجودگی میں راقم الحروف کو بتایا کہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف آئی جے آئی کے اکثر خفیہ اجلاس صدر مملکت غلام اسحاق خان کے ایک قریبی رفیق اور عملاً ”ایوان صدر کے دارالمہام کرنل عجائب کی اقامت گاہ پر ہوتے جہاں سے خفیہ پیغام رسانی بھی آسان ہوتی“۔
الیکشن90ء میں جو ریکارڈ ساز دھاندلی کی گئی اس کے روح رواں بھی غلام اسحاق خان ہی تھے۔ غلام اسحاق خاں نے ہی جنرل ضیاء کے چہیتے چوہدری شوکت علی کو سیکرٹری الیکشن کمیشن بنوایا اور بقول اظہر سہیل”چوہدری شوکت علی کا دفتر ان دنوں عملاً سازش کا گڑھ بنا ہوا تھا جہاں انتخابات میں پیپلزپارٹی کو شکست دینے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی…چوہدری شوکت علی اور بریگیڈئر امتیاز نے جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی کی نگرانی میں جو ”الیکشن ٹیکنالوجی“ تیار کی تھی وہ اتنی خوفناک تھی کہ کوئی بھی انتخابی نتیجہ ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے بغیر نہیں آ سکتا تھا اور ڈپٹی کمشنروں کو پوری طرح آگاہ کر دیا گیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے…الیکشن نتائج کے بعد صدر مملکت غلام اسحاق خان کا چہرہ خوشی سے کھلا جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کھل کر مسکراتے ہوئے کہا ”مردے کو نہلانا اور دفنانا میرا کام تھا سو میں نے کردیا، اب اسے بخشنا بخشوانا اللہ کے ذمہ ہے“ اگر ہماری تاریخ میں غلام اسحاق خان جیسا کردار نہ ہوتا تو ضیاء الحق کے بعد حقیقی جمہوریت بحال ہوگئی ہوتی، نہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں محاذ آرائی ہوتی اور نہ ہمیں ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کا عذاب بھگتنا پڑتا اور نہ ہم آج بے یقینی اور عدم استحکام کی حالت میں ہوتے۔
تازہ ترین