• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوٹھو ہار کے علاقے کلر کہار سے چوہا سیدن شاہ کی طرف جائیں تو راستے میں کٹاس راج کے مندر آتے ہیں۔ ان مندروں کا شمار ہندو مذہب کے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ پنجاب کے ضلع چکوال کی تحصیل چوہا سیدن شاہ کی گھومتی پہاڑی پر ایستادہ یہ مندر دور ہی سے نظر آ جاتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے از خود نوٹس نے ان مندروں کی تاریخی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب شیو بھگوان کی بیوی ستی کی موت ہو گئی تو شیو دیوتا خوب روئے۔ ان کے رونے سے جو آنسو گرے اس سے دو مقدس چشمے پھوٹے۔ ایک ہندوستان میں پشکو راج کا چشمہ، جو اجمیر میں ہے اور دوسرا کٹاس راج۔ایک طرف ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہا بھارت میں اس کا ذکر ہے تو دوسری جانب شیو جی کی قربت نے کٹاس راج کے اس چشمے کو ہندوؤں کے مقدس ترین مذہبی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔ تبھی تو صدیوں سے کئی ہندو عقیدت مند ان مقدس پانیوں سے اشنان کرتے ہیں۔ لیکن جب سے اس علاقے میں سیمنٹ فیکٹریز لگی ہیں، وہ یہاں سے پانی کھینچ رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ جھیل جو کبھی عقیدت مندوں کو بے تاب اور کئی علاقوں کو سیراب کرتی تھی، آج خشک ہو رہی ہے کیونکہ سیمنٹ فیکٹریوں کی جانب سے پانی کا استعمال پورے چکوال شہر کی آبادی سے زیادہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے یکم نومبر کو میڈیا اطلاعات پر کٹاس راج کے مقدس چشمے کے خشک ہونے کا نوٹس لیا تھا۔ اب ظلم یہ ہوا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے گزشتہ 8سال سے کٹاس راج چوہا ٓسیدن شاہ میں کام کرنے والے متعدد ملازمین کو بیک جنبش قلم نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ لوگ 2008ء سے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ملازم تھے لیکن انہیں بغیر کسی نوٹس اور اطلاع کے نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا جو سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ برطرف ملازمین نے کٹاس راج کو اس کی اصل حالت میں بحالی کیلئے دن رات کام کیا اور ایسے وقت میں جبکہ وہ کسی دوسری جگہ نوکری کے حصول کے بھی قابل نہیں رہے، ان کے بچوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ہے۔ ملازمین کو ان کی خدمت کا خوب صلہ دیا گیا ہے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کے محض ایک فیصلے سے سینکڑوں گھروں کا چولہا بجھ گیا ہے اور ملازمین انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ اعلیٰ انتظامیہ، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان اور بالخصوص چیف جسٹس آف پاکستان سے التماس ہے کہ وہ ان غریب ملازمین کو انصاف دلوائیں۔ ان ملازمین کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے لہٰذا ارباب اختیار بالخصوص اعلیٰ عدلیہ کو چاہئے کہ ان کی سرپرستی کرے اور جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے ان کی بحالی کے احکامات صادر فرمائے یا ان کو کوئی متبادل روزگار فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے تاکہ ان کے گھروں کا چولہا جل سکے۔
(شکیل و متاثرین کٹاس راج)
تازہ ترین