پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم تر نعمت ہے ۔یہ ہم سب کے لئے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔آج وطن عزیز میں پانی کی قلت شدید ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ 70سالوں کے دوران حکمرانوں نے جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے،اس نے پاکستان کو خشک سالی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔بین الاقوامی اداروں کے سروے کے مطابق پاکستان 2025 ء تک اس نعمت سے تقریباََ محروم ہو جائے گا جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ڈیمز کی کمی ہے اس کمی کی وجہ سے شاید پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے جو سنگین صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔پاکستان میں پانی کی قلت پر آنے والی ایک رپورٹ کے بعد حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اسی سلسلے میں انھوں نے عوام سے چندے کی اپیل بھی کی۔ چیف جسٹس نے ڈیم فنڈ بنانے کا حکم دیا اور ’دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ 2018‘ کے نام سے قائم کئے گئے بینک اکاؤنٹ میں اپنی جیب سے دس لاکھ روپے جمع کرائے۔چیف جسٹس آف پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چیئرمین سینیٹ،افواج پاکستان اور دیگر سرکاری افسران نے ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔تاہم سوال یہ ہے کہ کیا چندہ جمع کر کے کوئی ڈیم بنایا گیا ہے یا ایسا ممکن بھی ہے؟میری ذاتی رائے میں ڈیم فنڈ سے ڈیم نہیں بنتا مگر ایسا کرنے کا مقصد عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔جبکہ ایسے اقدام سے حکمرانوں کو بھی احساس ہوتا ہے کہ ڈیم بنانا کس قدر ضروری ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کےڈیم بنانے کے حوالے سے جذبے کی داد دینی چاہئے۔یہ ان کا کام نہیں ہے۔مگر جب سب ہاتھ پر ہاتھ دھر کربیٹھےہوں تو پھر ملک و قوم کے لئے کسی کو تو آگے آنا ہوتا ہے۔
میری معلومات کے مطابق پاکستان میں 15 میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150 ہے۔ جس میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں۔حال ہی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تربیلا ڈیم ’ڈیڈ لیول‘ پر پہنچ گیا ہے جبکہ منگلا ڈیم میں اب صرف آٹھ لاکھ ایکڑ فٹ پانی رہ گیا ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔گزشتہ سال ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔ ان تمام بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔قوم کو چیف جسٹس ثاقب نثار کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے پوری قوم اور حکومت وقت کی توجہ ایک ایسے مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے ۔جس کے متعلق ہم میں سے کوئی اس قدر سنجیدگی سے نہیں سوچ رہا تھا۔یہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہی ہیں جنہوں نے پوری قوم کو بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔آج انہی کی وجہ سے ہم سب پانی کی قلت کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پانی کی قلت اور مسائل سے متعلق دو روزہ سمپوزیم کا انعقاد ایک احسن اقدام ہے۔اس کا مکمل کریڈٹ بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی ذات کو جاتا ہے۔اس خاکسار کو بھی سمپوزیم کانفرنس میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔نماز جمعہ کے بعد شاہراہ دستور پر قائم سپریم کورٹ کی بلند و بانگ عمار ت میں داخل ہوا تو چیف جسٹس ثاقب نثار خود تمام انتظامات کی نگرانی کررہے تھے۔کانفرنس میں ملک بھر سے شرکاء کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔تمام انتظامات کو حتمی شکل دینے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی معاونت کررہے تھے۔کانفرنس میںآبی وسائل کے کئی ماہرین اور متعدد شرکاء نے خطاب کیا مگر جمعہ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان کا خطاب سمندرکو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ" ڈیم بناناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔40 سال مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیاگیا، فوری اقدامات نہ کئے تو 7 سال بعد پاکستان کو خشک سالی کا سامنا ہوگا، ہمیں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے پانی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا،بڑے ذخائرکی تعمیرناگزیر، قومی آبی پالیسی پر انتظامیہ کا کلیدی کردار ہے۔چیف جسٹس درست فرمارہے تھے کہ پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہے۔پانی زندگی ہے اور ہماری بقا کا مسئلہ ہے آج وقت ہے کہ کچھ کریںیا مرجا ئیں،ہم ڈو آر ڈائی ' جیسی پو زیشن میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2040تک پاکستان پانی کی شدید قلت کے شکار کل 33 ممالک میں سے 23ویں نمبر پر آجائیگا، پاکستان کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میںپانی کی کمی کی وجہ سے خطرات کا ذکر کیا ہے اور انتظامیہ کو ہدا یت کی ہے کہ وہ دیا میر بھا شا اورمہمند ڈیم کی تعمیر شروع کر نے کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے،اس ضمن میں ہم نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیمز فنڈزکیلئے چندہ دے، ہم قوم کے مثبت ردعمل کے انتہائی مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب چندہ مہم میں رقم جمع کی جا رہی تھی تو اس دوران میں بعض اوقات جذباتی ہو گیا،جو لوگ پانچ ہزار رو پے پنشن لے رہے تھے۔ انہوں نے بھی ڈیم فنڈز میں چندہ دیا،اس دوران بچو ں نے بھی چندہ دیا ۔اب ڈیمز فنڈزکیلئے چندہ کا حصول ایک با قاعدہ مہم میں تبدیل ہو گیا ہے"اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چیف جسٹس کی ڈیم فنڈ مہم نے لوگوں میں ڈیم کے حوالے سے آگاہی اور جذبہ دیا ہے۔چیف جسٹس نے اپنے حصے کی شمع جلادی ہے ،اب حکومت اور ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔سمپوزیم میں حکومتی وزراء اور وفاقی بیوروکریسی سمیت فیصلہ سازوں کی اکثریت موجود تھی۔اب ان سب کو چیف جسٹس کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہوگا وگرنہ ہم ایسے آبی بحران کاشکارہو جائیں گے کہ داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔۔۔۔