• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کی آمد آمد ہے گو تاریخ کا اعلان نہیں ہوا مگر سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ۔ حکمراں جماعتیں اپنے دور میں کئے جانے والے ”کارناموں “ کی تشہیر کیلئے سرکاری وسائل استعمال کر رہی ہیں۔ کچھ حلقے آئندہ انتخابات کو خونی انتخابات کا نام دے رہے ہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات کے عمل کو غیر جانبدار اور شفاف بنانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کی کچھ جھلک نظر بھی آئی ہے۔ اب دہری شہریت رکھنے والے ارکان کی وجہ سے خالی ہونے والی9نشستوں پر 4دسمبر2012ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے2قومی اور 7صوبائی اسمبلی کی نشستوں پرکامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست ق لیگ اور سندھ اسمبلی کی نشست پی پی کے حصے میں آئی۔ عام انتخابات سے پہلے یہ آخری ضمنی الیکشن تھے ۔تجزیہ کاروں، مبصرین اور عام لوگوں کا بھی خیال تھا کہ یہ ضمنی الیکشن آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ٹرینڈ بھی سیٹ کریں گے کیونکہ یہ ق لیگ اور پی پی کا ن لیگ کیخلاف پہلا باقاعدہ انتخابی اتحاد تھا۔ گجرات میں چوہدری خاندان اور کائرہ خاندان نے اپنے امیدوار کی بھرپور مہم بھی چلائی اور اس سیٹ پر ن لیگ کو چیلنج بھی دیا گیا مگر یہ نشست نہ جیت سکے۔ جہاں تک نارووال سے ق لیگ کے امیدوار نے الیکشن جیتا ہے تو اس کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ عمر شریف خاندان کی ذاتی فتح ہے۔ اس لئے ق لیگ اور پی پی کیلئے نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ ان کے انتخابی اتحاد پر ایک بڑا سوال ہے؟ لگتا تو ایسے ہے کہ ق لیگ اور پی پی کا اتحاد صرف قیادت کی حد تک ہے یہ کارکنوں کو ہضم نہیں ہو گا۔ منظور وٹو کو پنجاب سپرد کرنا بھی کارکنوں کے اندر مایوسی کا سبب بنا ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ ن لیگ نے پنجاب میں اپنی بالادستی قائم رکھی ہے تو اس پر اسے بھی زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پورے ملک میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں سب سے زیادہ کام ہوئے ہیں لیکن جہلم کے ایک گاؤں میں جس طرح لوگوں نے احتجاجاً ووٹ نہیں ڈالے اور بعض نے ووٹرز پرچی پر یہ درج کیا کہ کوئی بھی ووٹ لینے کے قابل نہیں تو آئندہ عام انتخابات میں یہ معروف رجحان کے طور پر بھی سامنے آ سکتا ہے اور پھر نگران حکومت کے قیام کے بعد میدان سب کیلئے ایک جیسا ہوگا اور الیکشن تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کی نئی حد بندی بڑا اہم کردار ادا کرے گی۔
ضمنی الیکشن میں امن و امان کی صورتحال کو مجموعی طور پر زیادہ اچھے مارکس نہیں دیئے جا سکتے۔ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کی بعض حلقوں میں دھجیاں بکھیری گئیں۔ امیدواروں کے حامیوں کی طرف سے اسلحے کا آزادانہ استعمال، ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ نارووال میں امیدواروں کے حامی بیلٹ پیپر چھین کر لے گئے ۔ چیچہ وطنی میں فائرنگ سے پولنگ کا عمل معطل رہا۔ گجرانوالہ میں خفیہ بیلٹ پیپر کی بجائے کھلے عام مہر لگاتے رہے۔ چکوال کے علاقہ سلہریاں میں مسلح افراد پریذائیڈنگ آفیسر سے 400بیلٹ چھین کر فرار ہو گئے۔ بعض جگہوں پر میڈیا کے نمائندوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال پر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعات کو روکنا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی اور الیکشن کمیشن نوٹس نہیں لے گا کیونکہ یہ واقعات پولنگ اسٹیشن سے دور ہوئے ہیں۔ گو انتظامیہ نے14/افراد کو فائرنگ کیس میں حراست میں لیا ہے لیکن آزادانہ الیکشن کمیشن سے عوام تو یہی توقع رکھتے ہیں کہ الیکشن کا پُرامن اور شفاف انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمیشن کو سارے معاملات اپنے کنٹرول میں لیکر غیر جانبداری سے کارووائی کرنی چاہئے۔ یہ تو صرف 9نشستوں کے ضمنی انتخابات تھے۔ عام انتخابات کیلئے ایسے انتظامات ہونے چاہئیں کہ الیکشن کمیشن پر انگلی نہ اٹھے۔
کراچی میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے نے موجودہ صورتحال میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس سے پہلے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو اس مسئلے میں الجھائیں انہیں اس ایشو کے پس منظر کا پتہ ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ نے امن وامان کے حوالے سے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے6/اکتوبر2011ء کو کہا تھا کہ قانون کے مطابق حلقہ بندیاں کرائی جائیں۔نئی حلقہ بندیاں آئین میں رکاوٹ نہیں، اس وقت تو تمام سیاسی جماعتیں خاموش رہیں نہ تو کسی نے اس فیصلے کو چیلنج کیا نہ ہی الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اپیل دائر کی گئی ۔آج بھی سوائے ایم کیو ایم کے تمام دیگر سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں کیونکہ یہ حلقہ بندیاں ڈکٹیٹر جنرل ( ر) مشرف نے 2002ء کے الیکشن سے پہلے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے کرائی تھیں۔ حلقہ بندیوں کے وقت نہ قانونی تقاضے پورے کئے گئے نہ ہی الیکشن کمیشن فیلڈ میں گیا بلکہ اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ حلقہ بندیاں کر دی گئیں ۔ اب 14 مہینے کے بعد ایم کیو ایم نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے قائد الطاف حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”کراچی میں نئی حلقہ بندیاں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک توڑنے کیلئے کی جارہی ہیں، ہم کسی کو اپنے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے“۔ حالانکہ عدالت نے کہا تھا کہ یہ عنصر اصل ووٹوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم کر رہا ہے۔ اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ صرف کراچی کی حلقہ بندیاں ہی کیوں، یہ تو پورے ملک میں کرانی چاہئے۔ اس میں دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ ایک تو درخواست گزار نے کراچی کے حوالے سے کیس اٹھایا تھا اور الیکشن کمیشن کا یہ اختیار ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے کسی بھی حلقہ کو تبدیل کر سکتا ہے اگر وہاں کے رہنے والے لوگوں کی جائز شکایات ہوں ۔ چیف الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے اعتراضات غلط فہمی پر مبنی ہیں اور سب کو جان لینا چاہئے کہ الیکشن 2013ء ایک نئے ماحول میں ہوں گے لیکن اگر کسی سیاسی جماعت کے تحفظات ہیں تو وہ دور کریں گے۔ یہ جو موقف اختیار کیاگیا ہے کہ حلقہ بندیاں پورے ملک میں کرانی چاہئیں تو فرض کریں کہ اس کیلئے کوئی عدالت کا دروازہ کھٹکٹھاتا ہے اور عدالت یہ حکم دے دیتی ہے تو اس پنڈورا باکس کے کھلنے سے الیکشن کا بروقت انعقاد مشکوک ہو جائے گا لیکن یہ بھی بہت بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک جتنی بھی حلقہ بندیاں ہوئی ہیں وہ سیاسی جماعتوں اور مضبوط امیدواروں نے اپنی مرضی سے کرائی ہیں اس لئے موجود ہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والی حلقہ بندیاں شفاف الیکشن کی طرف ایک اور اچھا قدم ہوگا۔
تازہ ترین