• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کی شام وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب کیا، منگل کی رات عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی، پرانے دوست اور سیاسی امور کے مشیر نعیم الحق سے ملاقات ہوئی۔ ہم لوگوں سے الگ ہو کر ایک کونے میں ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے، دور بیٹھ کر بھی ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے، کچھ ہی دیر بعد وہاں عندلیب عباس آ گئیں اور کہنے لگیں کہ آپ خاص باتیں علیحدہ ہو کر کرتے ہیں۔ نعیم الحق سے ہونے والی گفتگو کی پوری تفصیلات تو قارئین کی نذر نہیں کی جا سکتیں مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تھوڑے سے انتظار کے بعد پاکستان میں خوشحالی کا موسم نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ نعیم الحق کی باتوں کو اس لئے وزن دینا پڑتا ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے قیام سے بہت پہلے سیاست کا آغاز کیا تھا، وہ ایک زمانے میں تحریک استقلال کا حصہ تھے۔ ایک اور انوکھی بات آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک زمانے میں کراچی میں نعیم الحق کے گھر کے ایک کونے پر تحریک استقلال کا پرچم لہراتا تھا اور دوسرے کونے پر پاکستان جمہوری پارٹی یعنی پی ڈی پی کا پرچم لہراتا تھا مگر اس کی وجہ نعیم الحق نہیں، دراصل ان کے ایک بھائی تحریک استقلال میں تھے اور دوسرے بھائی پی ڈی پی میں تھے۔ نعیم الحق کا تذکرہ چھڑا ہے تو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وزیر اعظم کے یہ مشیر پنجاب سے بھی خوب واقف ہیں، ان کے والد 50کی دہائی میں سرگودھا اور لاہور کے علاوہ پنجاب کے کئی اضلاع میں بطور ایس پی فرائض انجام دیتے رہے، یوں نعیم الحق کا بچپن پنجاب میں گزرا۔ سیاست میں آنے سے پہلے نعیم الحق بینکر تھے، ان کی عمران خان سے ملاقات 1982ءمیں ہوئی، پہلی ملاقات ہی سے دوستی نے جنم لیا جو آج تک قائم ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے میرے ایک خلیفہ مرزا عدیل، نعیم الحق کے سیکرٹری ہیں، میں جہاں کہیں بھی نظر آئوں تو میرا خلیفہ فوراً میرے پاس آتا ہے اور آتے ہی کہتا ہے کہ ’’پیر صاحب خیر ہے۔‘‘

منگل ہی کی شام وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے بڑے یادگاری ٹویٹس کئے۔ مثلاً عمران خان کا تعارف عالم اسلام کے ایک مدبر اور عظیم رہنما کے طور پر ہوا، ہمارے وزیر اعظم کا تعارف ایک بے باک رہنما کے طور پر ہوا۔ وزیر اعظم کے دورئہ سعودی عرب کے دوران اپنے پیارے افتخار درانی نے شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی پر مناظرے کا چیلنج قبول کیا اور تین وزراء کو لانے کا وعدہ کیا۔

بدھ کی شام وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کے دوران سعودی عرب کی طرف سے مشکل حالات میں مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا، ساتھ ہی سعودی عرب اور یمن کے مابین ثالثی کی نوید سنائی۔ دورئہ سعودی عرب کے مثبت ثمرات بدھ کی صبح ہی سے آنے شروع ہو گئے ، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی، ڈالر کا ریٹ کم ہوا اور سونا بھی تھوڑا سستا ہو گیا۔ وزیر اعظم کو دو دوسرے دوست ملکوں سے بھی ایسی ہی امید ہے، انہیں یقین ہے کہ دوسرے دو ملک بھی پاکستان کے مشکل حالات میں تعاون کریں گے۔ اس سلسلے میں عمران خان آئی ایم ایف کے وفد کی آمد سے پہلے ملائشیا اور چین جائیں گے، ان دوروں سے واپسی پر اندازہ ہو سکے گا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں اور اگر جانا بھی ہوا تو انتہائی مختصر قرضے کے لئے جانا ہو گا۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آئی ایم ایف کا آپشن موجود تھا تو پھر کیوں وزیر اعظم عمران خان نے دوست ملکوں کا رخ کیا۔ عمران خان کو دوست ملکوں کے پاس مجبوراً جانا پڑا کیونکہ آئی ایم ایف نے ہمارے وزیر خزانہ کو بتا دیا تھا کہ اگر ہم سے قرضہ لینا ہے تو پھر ڈالر ایک سو اسّی روپے کا کرنا ہو گا۔ عمران خان پرآئی ایم ایف کا یہ موقف بجلی بن کر گرا، انہوں نے اسی لئے دوست ملکوں کے پاس جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ عمران خان پاکستانی عوام کو مہنگائی سے بچانا چاہتے ہیں، حالیہ مہنگائی بھی پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے، لوٹ مار کر نے والے پاکستان کو مقروض کر کے چلے گئے، انہوں نے نہ وطن کا خیال کیا اور نہ ہی اہلِ وطن کا۔ عمران خان جب بھی سعودی عرب جاتے ہیں تو پہلے مدینہ منورہ کا رخ کرتے ہیں، وہ مدینہ منورہ میں جوتے نہیں پہنتے، وہ مدینہ میں ہر لمحہ اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں، اس بار وہ روضۂ رسولؐ پر دیر تک آنسو بہاتے رہے، یہی آنسو ان کی دوجہانوں میں کامیابی کی علامت بنیں گے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ’’مشکل ترین حالات بہترین لوگوں کے حصے میں آتے ہیں کیونکہ وہ مشکل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ اگر علم کے دروازے حضرت علیؓ کے اس قول کو پیش نظر رکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کے حصے میں مشکل ترین حالات آئے ہیں۔ اس بار جب عمران خان روضۂ رسولؐ پر حاضری کے لئے جا رہے تھے تو کئی پاکستانی آوازیں بلند کر رہے تھے کہ ’’خان صاحب چوروں کو نہ چھوڑنا‘‘ عمران خان اپنی تقریر میں یہ باتیں نہیں بھولے۔ سعودی شاہی خاندان سے ملاقاتوں میں ایک اہم سعودی شخصیت نے عمران خان سے کہا ’’ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے، اگر مزید ضرورت ہوئی تو وہ بھی پوری کریں گے مگر آپ اپنا ملک لوٹنے والوں کو نہ چھوڑیں‘‘۔ عمران خان نے دبنگ انداز میں دوران تقریر کہا کہ وہ کسی بھی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، ان کا عوام سے یہی وعدہ تھا، کرپشن کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے واشگاف انداز میں کہا کہ ’’کان کھول کر سن لو، کسی کو این آر او نہیں ملے گا، کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا، جس کا جو دل ہے کر لے‘‘ لوٹ مار کرنے والوں کو دیکھ کر سرور ارمان کا شعر بے اختیار یاد آتا ہے کہ ؎

ہمیں معلوم نہ تھا، چاک قبا پھولوں کی

صحنِ گلشن کے نگہبان بھی کر سکتے ہیں

تازہ ترین