• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلاس روم میں استاد کا کام ایک رہنما کا ہوتا ہے، جو طالب علموں کے شوقِ تدریس کو نکھارتاہے۔وہ خود لکھاری نہیں ہوتا لیکن ادیبوں کی تحریروں اور ان کے طرزِ حیات کو جانتا ہے۔ اس لیے کئی حوالوں سے ایک ذہین استاد اپنے طالب علموں کو تخلیقی مصنف کے درجے پر فائر کر سکتا ہے، جس کیلئے کئی حکمت عملیوں سے کام لیا جاسکتا ہے۔

مطالعے کی عادت

سب سے پہلے طالب علموں میں کتاب پڑھنے کی عادت کو پختہ بنائیے۔ہر ایک طالب علم سے اس کا پسندیدہ موضوع معلوم کیجیے۔اس کے مطابق فکشن اور نان فکشن کا انتخاب کرتے ہوئے لائبریری جاکر اس کتاب کو پڑھنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ ضرور کہیے کہ اس کہانی یا واقعے کے بارے میں اہم نکات نوٹ بک پر لکھتے جائیں۔ استاد کو چاہیے کہ وہ کہانی یا مضمون کے کسی بھی پیرا گراف سے سوال کرے، یہ سوال کسی ایجاد کا سن،کسی کہانی کا کردار یا پھرکوئی منظر نگاری بھی ہوسکتی ہے۔ اس مشق کو یوں دلچسپ بنایا جاسکتا ہے کہ انگریزی و اردو ادب میں کلاسک کا درجہ رکھنے والے ناولز سے ماخوذ فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے طالب علموں کو ناول کا مطالعہ کرنے کی طرف لایا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جائے کہ فلم دیکھتے وقت اہم مناظر پر دھیان دیتے ہوئے ناقدانہ نگاہ سے دیکھنا ہے،کیوں کہ مطالعے کے دوران اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ تحریر میں منظر نگاری بہتر تھی یا اسکرین پلے! ایساہی سائنسی معلومات کے حوالے سے کرنا ہے کہ انہیں سائنس دانوں کی سوانح عمری اور سائنس فکشن پر مبنی کتب کی طرف راغب کرنا ہے تاکہ ان کی تخلیقی اور ناقدانہ سوچ میں اضافہ ہو۔

رائٹرز سیمینار

طالب علموں کو ادب کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ہفتے کسی نہ کسی ادیب کو مدعو کرکے کلاس روم یا آڈیٹوریم میں لیکچر کا اہتمام کیجیے،جہاں وہ ادیب یا سائنس داں اپنے تجربات شیئر کرے کہ میں کیسےاورکیوں لکھتا ہوں؟ لکھنے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ مضمون، مقالے،کہانی اور خبر میں کیا فرق ہے؟ تحریر کی اہمیت کیا ہے؟ کسی ادیب کے تخیل میں نامعلوم دنیا سے کردار کیسے جنم لیتے ہیں؟ شاعری کی کتنی اصناف ہیں اور مختلف جہتوں میں لکھنا کیوں ضروری ہے؟ تخلیقی ادب کیا ہے؟نیز تاریخ دانوں،سائنس دانوں اور ناقدینِ ادب کو مدعو کرتے ہوئے طالب علموں کوپینل ڈسکشن کے ذریعے ان میں شامل کیا جائے۔ رائٹرز سیمنار طالب علموں میں لکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے لکھاری بننے میں معاون ہوں گے۔

تحریر نگاری کی اصناف

اظہار کے کئی آہنگ ہیں،جن میں بنیادی طور پر خبر،مضمون، کہانی اور شاعری آجاتے ہیں۔شاعری غزل ونظم، قطعہ و مرثیہ،مسدس،دوہے کی صورت ہوتی ہے اور اس کے اوزان کی ترکیب کے لیے علمِ عروض کا جاننا لازم ہے۔یہی اطلاق کہانی و مضمون ،فیچر، انٹرویو، کالم یا تحقیقی کتاب لکھنے کے فن پر ہوتا ہے،جس کے لیے تخلیقی ادب کےمروج پیمانوں کا لحاظ ضروری ہوتا ہے۔تحریر کا بیانیہ و اسلوب کیسا ہونا چاہیے، یہ تجربہ اس ناقدانہ مطالعے سے ہوتا ہے، جو ہم تخلیقی ادب کے ضمن میں پڑھتے ہیں۔اس حوالے سے ایک اچھا استاد طالب علموں کوتنقیدی کتب پڑھنے کی طرف مائل کرتا ہے،جس سے افسانے، ناول اور شاعری کی باریکیوں کو طالب علم اوائلی عمر میں جان کر پھر پختگی کے اسی راستے کی جانب گامزن ہوتے ہیں، جو کسی تخلیق کار کی تحریر کا اسلوب اور لہجہ ہوتا ہے۔طالب علموں کو ہر روز ایک نئی ادبی اصطلاح سےمتعارف کرائیے اور ان سے کہیے کہ اپنے گوگل دوست سے اس پر مزید معلومات حاصل کریں۔ سوالات پوچھنے کی عادت کے ساتھ صحتِ املا کے لیے لغت دیکھنے کو بھی عادت بنانے میں معاونت کیجیے ۔ کلاس روم میں ہر روز غلط استعمال ہونے والے الفاظ اور جملوں کی نشان دہی کیجیے۔پھر دیکھیے طالب علم اپنے اظہار میں کیسے ملکہ حاصل کرتے ہیں۔

کہانی و مضمون نویسی مقابلہ

لکھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیےطالب علموں کے درمیان کہانی ومضمون نویسی کا مقابلہ کرائیے۔ طالب علموں کو موضوع دیکر اس پر لکھنے کے لیےایک ہفتہ دیجیے۔ پہلے،دوسرے اور تیسرے انعام یافتگان میں ایوارڈز کی تقسیم کے لیے تقریب کا اہتمام کرتے ہوئے نامور دانشوروں کو مدعو کریں۔ تقریب کو بیت بازی،تقریری مقابلے اورمیوزیکل شو سے آراستہ کرکے اس کا لطف دوبالا کیا جاسکتا ہے۔ 

تازہ ترین