• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ختم نبوت، اسلام کا بنیادی عقیدہ

تحریر:پروفیسر جی اے حق چشتی…لندن
روزاول جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تخلیق آدم کا فیصلہ فرمایا اور چاہا کہ اولاد آدم کو روئے زمین پر بسیرا عطا فرمائے اور اپنے رنگہائے گونا گوں انہی میں سے ظاہر فرمائے اور ان کی ہدایت و رہبری کیلئے اپنے انبیا ورسل کا سلسلہ جاری کرے۔ تو اس رب العالمین نے اسی روز یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ اس کا ایک محبوب ہو جو اس کی ذات وصفات کا مظہر اتم ہو اسی کے نور سے سب کو خلق کرے اسی کے فیض اقدس سے انبیا ورسل بنائے اور پھر اسی ذات بابرکات کو سارے انبیا ورسل کا خاتم بنائے وہی خاتم النبیین ہو وہی ختم المرسلین ہو اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا حمد گوہو کہ اللہ کی حمد گوئی میں کوئی بھی اس کی مثل نہ ہو وہی اور وہی احمدﷺ اور پھر ساری خلق اس کی نعت گو بن جائے اور پھر وہ محمدﷺ کہلائے کہ شان احمدیت میں کوئی اس کا ہم پلہ نہ ہواور نہ ہی مرتبہ محمدیت میں کوئی اس کا ہم سرہو تو اس ذات وحدہ لاشریک نے عالم ارواح تخلیق فرمایا اور ان ارواح میں سے انبیا ورسل کی ارواح کاملہ کو طلب فرمایا۔ اپنے حبیب ﷺ کو مہمان خصوصی کا شرف بخشا خود صدر مجلس کے رنگ میں جلوہ فرما ہوا۔
خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم
اور پھر اپنی تمام عنایتوں کے ساتھ ارشاد فرمایا
واذا احد اللہ میثاق النبین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جا کم رسول مصدق لما معکم لتومنن ولتصر نھ (آل عمران ۸۱)
(اور جب اللہ نے تمام انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو کتاب اور حکمت میں سے عطا کروں تو بعد میں میرا حبیب رسول ﷺ تشریف لائے تمہاری تصدیق کرے تو تم لازماً اس پے ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا) یہ آیت واضح بتلاتی ہے کہ اللہ جل شانہ نے روزاول یہی فیصلہ فرمادیا تھا کہ اس کے حبیب سید کل ختم رسل حضرت محمد ﷺ سب نبیوں کے بعد تشریف لائیں گے۔ دنیامیں حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت عیسیٰؑ تک جو بھی نبی ورسول آیا وہ اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہد کے مطابق حضرت محمد نبی کریمﷺ کی آمد سے متعلق بشارت اور آپکی ختم نبوت کو بیان کرتا رہا، اگرچہ پہلے نازل ہونے والی کتابیں اپنی اصل شکل میں موجود نہیں پھر بھی عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتاب بائبل میں ارشادات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مجموعہ بائبل کی کتابjohnکے پیرا نمبر16 میں ہےAnd I will pray the father , and he shall give you another comfortar that he may abide with you for ever.’’یعنی حضرت عیسیؑ ابن مریمؑ فرماتے ہیں کہ وہ اللہ
سے عرض کریں گے وہ تمکو ایک اور رحمتوں والا عطا کرےگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ حضرت عیسیؑ کے بعد صرف ایک نبی آئےگا جو رحمت اللعالمین ہوگا اور وہ ہمیشہ یعنی قیامت ہونے تک نبی ہوگا۔ اس کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بے شک ایسا ہی ہوا، مقصود کائنات منبع حیات سیدنا ومولانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہی رحمتہ اللعالمین اور خاتم النبیین بن کر دنیا میں تشریف لائے، اللہ جل جلالہ نے اپنے کلام ازلی ابدی میں ارشاد فرمایا۔’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘۔ ’’حضرت محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ وہ تو اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بیٹے عطا فرمائے مگر وہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی وفات پاگئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قطعاً پسند نہ فرماتا تھا کہ آپ ﷺ کی ختم نبوت میں کسی طرح کا بھی شائبہ اور اشتباہ باقی رہے اگر آپﷺ کا کوئی بیٹا زندہ رکھا جاتا تو بدخواہان زمانہ کو شرارت کا موقع مل جاتا اور وہ کہہ دیتے کہ الولدسر لا بیھ لھذز کہ آپﷺ کا بیٹا اصالتا نہیں تو ظلی وبروزی نبی تو ہوسکتا ہے رب تعالیٰ نے بالکل پسندنہ فرمایا کہ کوئی شرپسند ختم نبوت کے معاملہ میں کسی بھی طرح سے ذرہ برابر بھی شک وشبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو۔ عربی زبان کا کوئی بھی لفظ کئی معنی کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس کی کئی تادیلات کی جاسکتی ہیں اسی طرح قرآنی لفظ خاتم النبیین ہے اس کے بھی لغوی معنی اصطلاحی معنی، حقیقی معنی مجازی معنی وغیرہ بتلائے جاسکتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآ ن میں جب یہ لفظ استعمال فرمایا تویہ معلوم کرنا ضروری ہوا کہ خود اللہ تعالیٰ نے میں سے کیا معنی مراد لیا اللہ تعالیٰ کا مرادی معنی کیا ہے تاکہ کوئی اور معنی مراد نہ لے۔ اس کے لئے اللہ جل شانہ نے صرف ایک ہستی کو متعین فرمایا اسی کو یہ اہلیت بخشی اسی کو یہ اہمیت بخشی اسی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بعینہ مرادی معنی واضح فرمادے اس کو یہ شان اور یہ مرتبہ بخشا کہ جب وہ کسی قرآنی لفظ کا ایک معنی متعین فرمادیں تو پھر اس لفظ کا دوسرا معنی مراد لینا شرعاً ممنوع ہو گا کوئی دوسرا معنی مراد لینا قرآن میں تحریف قرار دیاجائیگا اور وہ ہستی صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہے لہٰذا حضرت نبی کریمﷺ نے اپنا فریضہ نبھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے نبی کی حیثیت سے اسی خدائے عزوجل کی طرف سے فرمادیا۔ ’’ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘ میں خاتم النبیین ہوں اس کا معنی مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ جب یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حبیب نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین فرمادیا تو پھر اس لفظ کا کوئی دوسرا معنی بیان کرنایا کوئی تاویل کرنا قرآن میں حریف کہلائے گا۔ اور اس جرم کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج قرارپاتا ہے لہذا عہد نبی ﷺ سے لیکر آج تک سب علما اس لفظ خاتم النبیین کا صرف یہی معنی کرتے آئے ہیں کہ اب کسی بھی رنگ میں کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً تفسیر جلالین میں ہے کہ لفظ خاتم اسم آلہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذریعے نبوت کو ختم کردیا گیا اور آپ ﷺ کے تشریف لانے سے انبیاء کرام ختم ہوگئے، تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ اس آیت میں لفظ خاتم النبیین کی وجہ سے ثابت ہوگیا کہ اب حضرت سیدنا محمد رسول ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا نہ ہی کوئی رسول اللہ ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے بھی اس لفظ کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو ختم فرمادیا ہے۔ ’’ فلا یکون نبی بعدہ‘‘ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ تفسیر خازن میں بھی بالکل اسی طرح معنی کیا گیا ہے ، تفسیر المدارک میں خاتم النبیین کا معنی آخر النبیین لکھا ہے یعنی آپ ﷺ سب نبیوں کے آخر میں تشریف لائے، امام رازیؒ کی تفسیر کبیر میں بھی یہی معنی لکھا ہے تفسیر بیضادی میں بھی یہی لکھا ہے کہ خاتم النبیین یعنی تمام نبیوں کے آخر میں نبی بن کر تشریف لائے۔ یعنی آج تک کسی مفسر یا کسی بھی عالم دین نے اس کے علاوہ کوئی معنی نہیں  لیا۔ ہندوستان میں انکار ختم نبوت کی شکل میں ایک بہت بڑا طوفان کھڑا کیا گیا اور اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت سے اسکو ٹکرایا گیا اس دور کے امام اور مجدد حضرت سید نا پیر مہر علی شاہؒ نے اپنی تالیف ’’ شمس الہدیۃ‘‘ اور سیف چشتیائی‘‘ کے ذریعے اور عملی کاوش کے ساتھ اس طوفان کے سامنے کبھی نہ ٹوٹنے والا بند باندھ دیا۔ حضرت قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ ؒ کے فیضان سے عام مسلمانوں پر کیا اثر ہوا اس مسئلہ پر عام پڑھا لکھا باشعور مسلمان کیا سوچتا ہے اور کس طرح استدلال کرتا ہے محترمہ عمیرہ احمد کی کتاب ’’ پیر کامل‘‘ پڑھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عام پڑھا لکھا مخلص انسان یوں سوچتا ہے کہ پورے قرآن میں ساری تفاسیر میں تمام احادیث مبارکہ میں یعنی سارے مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر میں اشارتاً بھی حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ مکمل طورپر اس کو روکا گیا ہے۔ امت کے علما اور صلحا کو گالیاں دینے والا کبھی نبی نہیں ہوسکتا۔ پوری انسانی تاریخ میں کہیں ثابت نہیں کہ اللہ کے نبی نے کبھی اپنے دشمنوں اور مخالفین کو گالیاں دی ہوں اور گندی زبان استعمال کی ہو۔ اللہ کی طرف سے آنے والی وحی میں بھی بدترین کافروں کے لئے گندے الفاظ نہیں بولے گئے غیر مہذب الفاظ میں اللہ کی وحی نہیں ہوسکتی۔ قرآن وحدیث میں ایک امتی نبی کا ذکر بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ ہے اور وہ حضرت عیسی مسیح ابن مریم ہیں جو بہت زمانہ پہلے کنواری مریم بی بی کے پاک بطن سے پیدا ہوئے اپنے وقت میں نبی ہوئے زندہ آسمان پر اٹھالیے گئے اور آسمان سے زمین پر اتارے جائیں گے پھر وہ نبی نہیں کہلائیں گے حضرت سیدنا محمدرسول ﷺ کے امتی کہلائیں گے۔ اس طرح ہر پڑھا لکھا مسلمان مانتا ہے کہ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس کا منکر مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں۔
تازہ ترین