• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب من و سلویٰ کے عادی ہوچکے ہیں۔

عطیات اور خیرات کا انتظار کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:’’انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے کوشش کرے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پیغام دیا۔ محنت کرنے والا اللہ کا حبیب ہے۔

ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ دُنیا میں مہذب اور ترقی یافتہ قومیں وہی ہیں جہاں خیرات نہیں ہے۔ رعایتی قیمتیں نہیں ہیں۔ سب محنت کرتے ہیں۔9سے 5دفتر میں ایسے ڈیوٹی کرتے ہیں کہ کوئی بے مقصد فون نہیں۔ کوئی کسی کے دفتر اچانک نہیں جا ٹپکتا۔ ذاتی۔ سماجی ملاقاتیں دفتری اوقات کے بعد ہوتی ہیں۔ کوئی دستر خوان نہیں بچھائے جاتے۔ کہیں مفت کھانے نہیں کھلائے جاتے۔ وہاں غیر سرکاری تنظیمیں سرکار کا کام نہیں کرتی ہیں۔ اسکول۔ اسپتال۔ انسان سب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ایسا نظام تشکیل دے چکے ہیں کہ زندگی کی ساری ضروریات کی فراہمی بر وقت اور قواعد و ضوابط کے تحت ہوجاتی ہے۔ ادارے مالی امداد کے لیے چیختے چلاتے نہیں ہیں۔

مگر ہم جو بادشاہوں کے وارث ہیں۔ جنہیں شاہی خلعتوں کی عادت ہوچکی ہے۔ بادشاہ راخوش آمد و محمود شام را خلعت داد۔ مغل بادشاہ کو کسی نے مے نوشی کے وقت برف فراہم کردی تو ایک آباد علاقہ اس ٹھیکیدار کے حوالے کردیا۔ وہ جدی پشتی جاگیردار بن گئے۔ پھر انگریز اسی طرح عنایات کی بارشیں کرتے رہے۔ قبائل کے سردار ہیں۔ ان کے علاقوں میں سونا ہے تانبا ہے۔لیکن وہ مرکزی حکومت کے وظیفے کا انتظار کرتے ہیں۔ سرکاری منصوبوں میں اپنے لوگوں کو بغیر کام کے تنخواہیں دلواتے ہیں۔

کام کیے بنا معاوضوں۔ وظیفوں۔ مشاہروں کی عادت ہم سب کو پڑ چکی ہے۔ غریب عطیات اور خیرات کے انتظار میں رہتے ہیں۔ امیر صنعت کار ۔ اس آرزو کی جستجو میں۔ حکومتیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں شمولیت کی دھن میں لگی رہتی ہیں۔

بخششیں۔ ٹپ۔ کک بیک۔ کمیشن ہمارا قومی کلچر بن چکے ہیں۔ بہت بڑی تعداد ایسے خوش نصیبوں کی ہے جن کا کوئی دفتر ہے نہ عملہ۔ نہ کوئی کمپنی۔ لیکن ہر ماہ لاکھوں کماتے ہیں۔ بہت پوش علاقوں میں رہتے ہیں۔ بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں۔ یہ اسلام آباد کے مرکزی سیکرٹریٹ۔ یا صوبائی سیکرٹریٹ کے ارد گرد منڈلاتے ہیں۔ انہیں سرکاری دفتروں کے دربان بھی پہچانتے ہیں۔ یہ آپ کی فائلوں کے پہیے لگاتے ہیں۔ سارا کام نقد ہوتا ہے۔ بے ایمانی پوری ایمانداری سے ہوتی ہے۔ لاکھوں روپے اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں۔ کوئی رسید نہیں، کوئی ثبوت نہیں۔ مگر مشکل سے مشکل کام ہوجاتے ہیں۔ یہ این او سی کی کمائی کھاتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں بہت سے معاملات میں No Objection Certificate کی پابندی اس لیے لگائی جاتی ہے۔ اعتراض کی قیمت کہیں ہزاروں میں۔ کہیں لاکھوں میں۔ کہیں کروڑوں میں۔

پاکستان ہر گز ہمیں خیرات میں نہیں ملا تھا۔ قائد اعظم کی قیادت میں اس کے لیے جدو جہد کی گئی۔ لاکھوں گھر اُجڑے۔ لاکھوں بہنیں ۔ مائیں۔ بچے۔ بزرگ شہید ہوئے۔ لیکن ہم میں سے اکثر نے اسے بھی تحفہ سمجھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سب کچھ دیا ہے۔ ایک اہم اور حساس محلّ وقوع۔ دریا۔ سمندر۔ سر سبز پہاڑ۔ سونا تانبا۔ قیمتی پتھر۔ گیس۔ تیل۔ اناج۔ زرخیز زمین۔ محنت کش۔ ایماندار۔ ذمہ دار عوام۔ہر صوبہ خود کفیل ہوسکتا ہے۔ ہر شہر اپنے خرچے خود اٹھاسکتا ہے۔ لیکن یہ خیرات اور عطیات کا کلچر ختم ہو تو پھر۔ یہ اشرافیہ۔ جو خود کوئی کام نہیں کرتی۔ پانی کا گلاس بھی خود اٹھاکر نہیں پی سکتی۔ ’چھوکرا‘ کی آواز لگائی جاتی ہے۔ گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ مہذب ملکوں میں اب کوئی چپراسی۔ نائب قاصد نہیں رہے۔ افسر خود اپنی فائلیں اٹھاکر دوسرے افسر تک پہنچاتے ہیں۔ بڑی بڑی ناکتخدا حسینائیں۔ فائلیں اٹھائے لفٹوں سے سیڑھیوں سے دوسرے دفاتر جاتی دیکھی ہیں۔ ہم سے بہت سے دل پھینک ان کے بوجھ برداشت کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

مملکت جو ہماری ماں ہے۔ ریاست جو ہماری اپنی ہے۔ اس کے پاس جو بھی پیسہ ہے۔ سرمایہ ہے۔ وہ ہمارا ہی ہے۔ لیکن ہم اسے مال غنیمت سمجھتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کی تلاش میں اسی لیے بال سفید کرلیتے ہیں کہ وہاں کام نہیں کرنا پڑے گا۔ تنخواہ ملے گی۔ میڈیکل الائونس جو بغیر بیمار ہوئے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ سرکاری رہائش گاہ جو ایک بار مل گئی پھر پشت در پشت اپنی ملکیت رہے گی۔ سرکاری ٹرانسپورٹ۔ جتنا بھی ناجائز استعمال ہو ہم اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سرکاری کلچر سے یہ روایات پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی آگئی ہے۔ دفتر کا فون۔ دفتر کا فرنیچر۔ دفتر کا پیٹرول۔ دفتر کا میڈیکل ۔ مال غنیمت سمجھ کر ہی استعمال ہوتا ہے۔

بادشاہ اپنے درباروں میں قصیدہ گوئوں ۔ شاعروں۔ نجومیوں ۔ موسیقاروں کو نوازتے تھے۔ ہم اسی سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی نظام نہیں بنانا چاہتے۔ جس کے تحت یہ سب کام کریں۔ اور اس کا جائز معاوضہ حاصل کریں کام کچھ نہ کریں۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ وظائف سے نوازتی رہے۔ ہم حکمرانوں پر الزامات عاید کریں۔ ان کے خلاف مہمات چلائیں۔ لیکن ان کا فرض ہے کہ ہمیں نوازتے رہیں۔

خیرات۔ عطیات اور من و سلویٰ کی اس فراوانی نے ہمارا مائنڈ سیٹ ہی تبدیل کردیا ہے۔ دُنیا معیشت کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ سفارت کاری ۔ سیاست۔ بین الاقوامی تعلقات سب مارکیٹ طے کرتی ہے۔ اس لیے آج کی دُنیا میں آگے بڑھنے کے لیے معاشی نقطۂ نظر ضروری ہے۔ ہر عمل اور ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہئے۔ پہلے ہر قوم کو اپنی اقتصادی، معدنی، زرعی اور سماجی حیثیت کا علم ہونا چاہئے۔ پھر دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا چاہئے۔ کیا ہم اپنی ساری زمینیں قابل کاشت کرچکے ہیں۔ کیا ہم سب اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کام کررہے ہیں۔ کیا ہم اپنے ریگزاروں سے قیمتی معدنیات نکال چکے ہیں۔ کیا ریکوڈک ہمارا انتظار نہیں کررہا ہے۔ کیا قیمتی پتھر ہمارے تیشے کے منتظر نہیں ہیں۔ پاکستان 60فیصد نوجوان آبادی کا ملک ہے۔ قریباً 6کروڑ تنومند۔ ہشاش بشاش نوجوان کیا ان سب کی توانائیوں۔ صلاحیتوں اور دست و بازو سے کام لے رہے ہیں۔

یہ جو غریبوں کے لئے دستر خوان بچھانے پر ہم ثواب اور تعریف کا مستحق سمجھتے ہیں۔ کیا ہم ان کو کوئی کام سکھا کر۔ باقاعدہ عزت سے تنخواہ نہیں دے سکتے۔ کہ وہ بھی پاکستان کی کمائی میںشریک ہوں۔

ہمیں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہئے۔ دوسروں پر بوجھ نہ بنیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اس دھرتی پر عزت اور وقار سے زندگی گزاریں۔ اس ملک کی قدرتی اور معدنی دولت کو نکالیں تو ہمیں آئی ایم ایف یا سعودی عرب کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین