• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ تو مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو اس سے پہلے کسی کو نہ ملی ہو۔ اللہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاس تین چیزیں بھیجیں۔ پہلی چیز دولت، دوسری شہرت، تیسری علم،حضرت سلیمان علیہ السلام نے علم کو پسند کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے دولت اور شہرت کو کہاچلو واپس چلیںتو دولت اور شہرت نے کہا کہ جب اللہ نے ہم کو پیدا کیا تو ہمیشہ کے لئے علم کے تابع کر دیا تھا۔ یعنی جہاں علم جائے گادولت اور شہرت اس کے پیچھے پیچھے جائے گی۔ اور آج اگر ہم آنکھیں کھول کر اس دنیا میںبسنے والوں کا مشاہدہ کریں تو جس جس ملک نے علم حاصل کیا۔آج وہ ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ اور بدقسمتی تو دیکھئے جہا ں جہاں مسلمان ممالک کا ذکر آتاہے وہ مجموعی طور پر ہر طرح کی دولت رکھنے کے باوجود علم سے بہت دور ہیں۔50ساٹھ مسلمان ملکوں کی ایک بھی یونیورسٹی بین الاقوامی معیار پر نہیں اترتی۔ لگ بھگ 800سال دنیا پر حکومت کر نے کے باوجود وہ آج ایک بھی نئی ایجاد کر نے سے قاصر ہیں۔جبکہ قرآن پورا ’’اقراء‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔جب تک مسلمان اس پر عمل کرتے رہے، ایجادات اس کی جاتی رہیں اور جب انہوں نے دولت کو ترجیح دینا شروع کی توعلم ان سے دور ہوتا گیا۔ آ ج ہمارے نئے وزیر آعظم عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں،اصل تبدیلی جب آئے گی،جب ہم علم کا علم اٹھا کر چلیں گے،تب ہی خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔اس کے لئے پوری قوم کو محنت کرنا ہو گی۔20 کروڑ عوام کو سب سے پہلے علم کی دولت سے مالا مال کرنا ہو گا،ورنہ ہم دنیا بھر کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے اور قومیں ہمیں بھکاری سمجھ کر اپنی من مانی شرائط پر بھیک دیتی رہیں گی۔ آج ہم دوبارہ قرض لینے اپنے دوستوں کی طرف نکلے ہوئے ہیں،طرح طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔فلاں ہمارا دوست اتنے ارب کا تیل قرض دے رہا ہے ،دیکھیں دنیا میں کوئی بغیر غرض آپ کو ایک روپیہ بھی نہیں دے گا۔کجا آپ اربو ں کی بات کر رہے ہیں۔سب سے پہلے علم کا بازار کھولیں۔آج شروع کریںگے تو صرف 10سال بعد اس کا پھل آپ کو ملے گا اور ضرور ملے گا ۔جب چین میں انقلاب آیا تو سب سے پہلے یہ نعرہ تھا کہ ہر شخص ایک فردکو پڑھائے گا۔Every One Teach One اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف برائیوںمیں مبتلایہ قوم ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم پڑھے لکھے 800سال تک ورلڈ پاور ہوتے ہوئے آج مفلس اور قلاش ہو چکے ہیں۔پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہے اُس کو تو ہم پیچھے چھوڑ کر دوسروں کے در پر جاکر وہ مانگ رہے ہیں جو خود ہمارے پاس موجود ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں تیل، گیس، سونا، معدنیات تو پنجاب ہرا بھرا زرخیز علاقہ ، سندھ کے تھر جیسے بنجر میں قدرت نے کوئلے اور پیٹرول کے ذخیرے چھپا رکھے ہیں دو سمندر قدرت نے ہمیں دے رکھے ہیں ۔ہم خود بجلی پیدا کرسکتے ہیں ،پانی کو میٹھاکرکے استعمال کرسکتے ہیں ۔آج دوستوں کے در پر سے اگر کچھ لے بھی آئے تو وہ واپس کرنا ہوگا ۔اس کو واپس کرکے دوبارہ پھر لینے کے لئے نکلیں گے کیا ؟قوم کو ایک خوشخبری سنا کر دوسرے ہاتھ سے ہم بجلی اور گیس کے دام بڑھادیتے ہیں جبکہ دوسری خوشخبری کے ساتھ ہی ڈالر 20روپے تک مہنگا ہوجاتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے در پر جارہے ہیں ۔6ارب کی امدادکے ساتھ پیٹرول جو گھٹ کر 76ڈالرز فی بیرل ہورہا ہے تو ہم اُس میں بھی قوم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے کئی روپوں کا اضافہ کردیتے ہیں ۔تبدیلی اپنی سوچ میں لائیں۔اب نعروں اور وعدوں سے کام نہیں چلے گا ۔قوم کب تک قربانی دے گی ۔ہر دور میںکوئی نہ کوئی نعرہ قوم کو تسلیاں دے کر خاموش کرادیتا ہے ۔آخر کب تک ایسے گلشن کا کاروبار چلے گا۔اب تو تبدیلی کو فخر سے بیان کرنے والے بھی اس لفظ سے شرمانے لگے ہیں۔ آہستہ آہستہ تبدیلی کا نعرہ بھی ہوا میں تحلیل ہوتا نظر آرہاہے ۔حزب اختلاف والے متحد ہونے جارہے ہیں۔ مشیروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے صرف تین ماہ میں بے چینی شروع ہوچکی ہے ۔اس پر بھی توجہ دیں اب میڈیا اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ منٹوں میں وعدوں کی کیسٹ سناسناکر آپ کو عوام سے دور کررہا ہے کس کس کو مطمئن کرینگے، نعرے اب کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔ کب وہ وقت آئے گا جب بدعنوانوں پر ہاتھ ڈالیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین